تحریر: نعیم مسعود
جب سبھی حسیں زاہدوں کو ناپسند ہو جائیں گے تو کہاں سے ملے گا حوروں کا سراغ؟ سمجھ سے بالاتر ہے ہم آئیڈیل ازم کے متلاشی ہیں یا آئیڈیل ازم کے ذہنی مریض؟ بہرحال سماجیات و سیاسیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے، صحافت اور صداقت کو شیر و شکر ہونا چاہئے تاہم دانشور، استاد، مرشد، عابد، زاہد، ملا اور مسٹر، سیاست کار اور قلم کار سب سماجی و سیاسی اکائیاں ہیں، پس اُنہیں کلچر اور تہذیب سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ جیسے کسی عالم اور زاہد کیلئے اپنے آپ کو انسانی نزاکتوں و خواہشوں سے الگ کرنا ممکن نہیں، بلاشبہ اس میں بناؤ اور بگاڑ کی حالتوں کو اپنی جگہ مدِنظر رکھنا مسلمہ ہے اور کسی ذمہ دار شخصیت کیلئے کسی کا ساتھ دینے میں برائی نہیں، برائی غلط کا ساتھ دینے اور سچائی سے کنی کترانے میں ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت جنم لینے والی بےثباتیاں دیکھ کر لگتا ہے، کہ لیڈر یا منصوبہ ساز ڈھونڈنے کیلئے چراغ اور تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہئے۔
پہلی بات، یہ آڈیو و وڈیو آسیب کے سایوں کی طرح سیاست کے ساتھ جس طرح چپکنے لگے ہیں، اُس میں کہیں سے اسٹیٹس مین کی جھلک نظر آرہی ہے نہ ذمہ دارانہ رویوں کا سورج طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے، جمہوریت کے چراغ گل ہونے کے سندیسے ضرور سنائی دے رہے ہیں۔ ویسے بھی جمہوریت جس قدر دھندلا چکی اور مقتدرہ نے جو رومانوی پہلو نکال رکھا ہے، اسے بھی تو آئیڈیل کہنا محال ہے!
دوسری بات، جسٹس ملک قیوم اور سیف الرحمٰن کی زرداری و بےنظیر بھٹو کو سزا دلوانے کی گفت و شنید کی ٹیپ ہو، جج ارشد ملک کی نواز شریف کو سزا دلوانے کی کال کا قصہ ہو، نیب چیئرمین کی معروف کال کا المیہ ہو، کسی خواجہ آصف ٹیلیفونک کہانی کی بازگشت ہو یا حالیہ مریم نواز اور پرویز رشید کے ٹیلیفونک مکالمے کی زیب داستان۔۔۔ اِن سب میں رکھا کیا ہے؟ اِن داستانوں سے ملکی اکنامکس کو کتنا فائدہ ہوا؟ غریب کا چولہا کتنا جلا؟ سفارتکاری اور جمہوری آبیاری میں کس قدر ارفع ہو گئے؟
تیسری غور طلب بات، کون ہے جو رازا فشا کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہے اور اِس سلسلۂ آڈیو وڈیو لیکس سے وہ کتنے قومی مفادات سمیٹ پایا؟ کہیں یہ سب جلتی پر تیل والا کام تو نہیں؟
چوتھی بات کا تعلق صحافت کے فن پاروں اور سیاست کے شہسواروں سے ہے۔ یہ جان لیجئے کہ مینجمنٹ اب سائنسز کا روپ دھار چکی، یہ بھی سمجھ لیجئے کہ سیاست کو اب پولیٹکل سائنس جانا جاتا ہے اور صحافتی علوم بھی اب میڈیا سائنسز کے پیرہن میں ملتے ہیں۔ اس ٹرائیکا کے درمیان جوڑ جس کوویلنٹ بانڈنگ کا ہے، اسے مارکیٹنگ کہتے ہیں۔ گویا مارکیٹنگ بھی اب سائنس ہی کا روپ ہے! اہم بات یہ کہ ایک یونیورسٹی کی لیڈرشپ کے تفویض کار میں فنانس مینجمنٹ، درس و تدریس و تحقیق کی مینجمنٹ اور مارکیٹ مینجمنٹ کلیدی امور ہیں، سو یونیورسٹی ہی نہیں یونیورس میں لیڈرشپ کے بھی یہی بنیادی اطوار و اظہار ہیں۔
سیاست اور صحافت کا کس زندہ ملک میں چولی دامن کا ساتھ نہیں؟ میڈیا مینجمنٹ یا اطلاعات و نشریات کی وزارت کہاں نہیں؟ ربط ثقافتی امور اور تہذیبی اقدار کے بغیر کیسے ممکن ہیں؟ معاشرتی علوم اور نفسیاتی اسباق کا کون سا باب ہے جو کہتا ہے کہ بغیر تعلق داری و رابطہ سازی کے رفاقتوں کا فروغ ممکن ہے؟ سارے میل جول، تحائف کا لین دین کرپشن کی تعریف پر پورے نہیں اُترتے۔ کسی کے راز کے تعاقب میں ٹیلی فونک گفت و شنید یا کسی اور ذریعہ سے ٹو میں رہنا ادھوری بات یا ادھورے سچ سے پورے مطالب اخذ کرلینا آسان بھی نہیں اور بعض صورتوں میں صریحاً غیراخلاقی بھی ہے۔
المختصر، مریم نواز اور پرویز رشید کی گفتگو پر پیالی میں طوفان اٹھایا گیا ہے، یہ جرنلزم کی خواہ مخواہ بدنامی ہے، تحفہ یا تعلق کی فلاسفی کو بلاوجہ داغدار کرنے والی بات ہے جسے سیاق و سباق سے جوڑ کر یا ہٹا کر دیکھنے میں کوئی قومی خدمت نہیں ملتی۔ اصل جرم حقائق کو چھپانا ہے، صحافتی تعلق نہیں صحافتی جھوٹ جرم ہے۔(بشکریہ جنگ)