bol news ko ishteharaat rokne ke hukum par amal daramad ka mutaalba

جو بول چھوڑے گا، اسے واجبات نہیں ملیں گے، نئی انتظامیہ کی پالیسی

ماضی میں بول کا ریکارڈ رہا ہے کہ جو بھی بول چھوڑ کر جاتا  اس کے تمام واجبات روک دیئے جاتے ،یہ روایت آج بھی نہیں بدل سکی ہے جب کہ نئی انتظامیہ نئے افسران آگئے ہیں، مگر روایت وہی پرانی چلی آرہی ہے۔  بول میں حالیہ دنوں میں کئی بڑی بڑی تبدیلیاں سامنے آئیں اور بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے بھی کئے جارہے ہیں مگر کچھ دن قبل بول پروگرامنگ ڈپارٹمنٹ کو خیرباد کہنے والے ریسرچر  جو کہ گزشتہ 6 سالوں سے بول کا حصہ تھے اور ایک کارڈینڑر  جو کہ گزشتہ 3 سالوں سے بول کا حصہ تھے دونوں نے جب بول نیوز کو استعفیٰ پیش کیا تو حسب روایت عید سے ایک روز قبل ان دونوں کی سیلری روک لی گئی ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ یہ بھی خیال نہیں کیا گیا کہ ایک دن بعد عید الاضحی ہے، دونوں نے جون کی 13تاریخ تک مکمل فرائض انجام دئے اور باقاعدہ بول کے (سابق نامور ہیڈ آف نیوز ڈپارٹمنٹ ) اور پروگرام ڈپارٹمنٹ کے آر اے کو بھی بتایا کہ وہ جلد نوکری چھوڑ کر کہیں اور جانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود پچھلے مہینے (مئی) کی وہ تنخوا روک لی گئی جس کا پے رول 23 مئی کو کلوز ہوچکا تھا، حیرت انگیز طور پر کوئی بھی اس بات کی زمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں کہ گزشتہ ماہ کی سیلری کس قانون کے تحت اور کس کے کہنے پر روکی گئی جبکہ تنخواہ اگر روکی بھی جاتی تو جون کی روکی جاتی، یہ تمام حالات دیکھنے کے بعد بول پروگرام اور نیوز ڈپارٹمنٹ کہ دیگر لوگ بھی شدید مایوس ہیں، بول کے لوگوں پر حال ہی میں بول کی بلڈنگ میں شفٹ ہونے والے ٹیلن نیوز کے فلورز پر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے، جبکہ حسب روایت دو لوگوں کی تنخواہیں روک کر یہ پیغام سب کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے کہ کوئی اور ایسا کرے گا تو اس کے ساتھ کیا ہوگا, مگر سوال یہ ہے کہ ادارہ چند ہزار کی تنخواہوں پر کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں کو روک کر ادارے کو فائدہ پہنچا رہا ہے یا پھر نقصان ؟؟؟ کسی کی عید کی خوشیاں برباد کر کے ادارے کو کیا ملا؟؟؟ جس شخص نے ادارے کے لئے 6 سال دیئے  مشکل حالات کے باوجود نوکری نہیں چھوڑی ، ادارے نے تنخوا ہ تو دور کی بات اتنے سالوں کا (پی، ایف) فنڈ جو باقاعدہ ہر تنخوا میں کانٹا جاتا تھا اس کا ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا ۔ آخر صحافیوں کے ساتھ یہ ظلم و ستم یہ نا انصافیاں کب تک چلیں گی؟؟؟

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں