تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
انسان سوچتا کچھ ہے ، سمجھتا کچھ ہے ،کرتا کچھ ہے، ہوتا کچھ ہے ، یہ’ کچھ‘ کبھی کبھی کچھ اور کبھی کبھی تو بہت سے مسائل اور بحثوں بلکہ تنازعات کا باعث بن جاتا ہے ، اسے سازش بھی قراردیا جاتا ہے اور مس انڈرسٹینڈنگ بھی ، بنیادی طور پر یہ ابلاغیاتی عمل کی کمزور ی ہوسکتی ہے یعنی اپنی بات دوسرے کو سمجھانے کا مناسب طریقِ کار یا فنی مہارت نہ ہونا بھی قراردیا جاسکتا ہے ۔
صنفی بالادستی پوری دنیا میں قدیم ترین ایشو ہے ، مرد خود کو عورت پر بالادست سمجھتا ہے جبکہ عورت اب یہ بالادستی قبول کرنے کو تیار بھی ہے ، مجبور بھی ہے اور باغی بھی ہے ۔ یہ بالادستی صرف سوچ ہی نہیں دونوں میں جسمانی خدوخال ، قوت اور جنسیاتی حسوں اور لذتوں کے حوالے سے بھی حتمی طور پر طے نہیں ہوسکی جبکہ حالات و واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مرد اس میں بھی بالادست ہے اور جنسی عمل میں زیادہ تسکین محسوس کرتا ہے ، پھر ایسے واقعات بھی کم نہیں ہیں کہ مرد اور عورت میں جنسی تسکین کے باعث مرد پسپا اور بعض کیسز میں خوار بھی ہوا ہے، اس کے باوجود کہ اب تک معروف ہونی والی جنسی قوت مین اضافے کی ادویات میں مرد کے استعمال کی ادویات کا خاص طور پر زکر ہوتا ہے حالانکہ جنسی زیادتی یا آبروریزی کے واقعات جنسی تسکین کے حوالے سے مرد کی لذتی حس کو بالا ظاہر کرتے ہیں،تو یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس معاملے کا تعین بھی ضروری ہے یا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، یہ کون اور کیسے سمجھاسکتا ہے ؟
یہی سوچتے ہوئے ٹریفک کے شوروغُل میں پریس کلب پہنچا تو یہاں پر آٹھ مارچ کے خواتین مارچ اور اس کے نعروں پر بحث چل رہی تھی، خواتین کی بڑی تعداد جس میں نوعمر لڑکیاں اور مرد و عورت کی’ درمیانی نسل ‘نمایاں تھی، ہمارے میڈیا کے ہر عمر کے ساتھی پیشہ ورانہ امور انجام دیتے ہوئے حسبِ اسطاعت و استعداد ان کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے ، کئی مناظرتو میں نہیں دیکھ سکا جو عورت مارچ کی شدید مخالفت کے حوالے سے تھے، باقی کا میں خود چشمِ دید ہوں ، ضبطِ تحریر مناسب نہیں ،کچھ درمیانی عمر کی لڑکیوں ، خواتین سے تبادلہ خیالات کے دوران سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنے والے ’سلوگن‘ پر بھی گفتگو ہوئی تو ان تمام خواتین کے دلائل بڑے مضبوط تھے ، بحیثیت مرد مجھے ان کی گفتگو اور کچھ خاص انداز کے مردوں کی سوچ کے حوالے سے ندامت سی بھی محسوس ہوئی لیکن یہ میرامسئلہ نہیں تھا کیونکہ سوچ اور خیالات ہر کسی کے اپنے، اپنے ہیں جبکہ بعض سلوگن پر ان کے دلائل میں قابلِ ذکر وزن نہیں تھا ، مثال کے طور پر’ کھانا گرم کروں یا بستر گرم کروں اس کے بارے میں مخالفین کا موقف ہے کہ جس کسی نے بھی یہ نعرہ لگایا ہے یا اس کا چناﺅ کیا ہے وہ شوہر کے جملہ حقوق سے انکار ی ہے اورنعرہ لغو ہے ‘اس پر محترمہ کا استدلال تھا کہ ایک ہی وقت میںایک عورت کے لئے دونوں’ امور‘ انجام دینا ممکن نہیں ، جہاں تک سلوگن کے الفاظ کے چناﺅ کا تعلق ہے تو یہ اس کے بارے میںرائے زنی کرنے والے کی ذہنی استعداد اور شعورکا معاملہ ہے، اگر اسے غیر مہذب یا غیر شائستہ تسلیم کیا جائے تو کیا شائستگی سے بات نہیں کی جاتی رہی؟ ´ ماضی میں کتنے عورت مارچ ہوئے اور وہ کتنے مقبول ہوئے ؟ اور کیا مارچ کے لئے نکلی ہوئی تمام خواتین خدا نخواستہ (ذہنی پسماندگی کے شکار لوگوں کی نظر میں )بازاری اور فاحشائیں ہیں ؟ عورت کی آزادی اور اسکے حقوق کی بات کرنا جرم اور گناہِ کبیرہ ہے؟ اگر کوئی عورت یہ کہتی ہے کہ’ میرا جسم ، میری مرضی‘ تو اس سے یہ تصور کیسے گھڑ لیا گیا کہ وہ جسم کی نمائش یا اس سے جنسی لذت اور استعمال کی بات کررہی ہے ؟اگر عورت اپنی استعداد سے زیادہ بوجھ اٹھانے سے انکار کرتی ہے تو کیا اس کا
حق نہیں ہے ؟وہ اپنی جسمانی حالت یا کیفیت کے پیشِ نظر کثرتِ زچگی سے انکار کرتی ہے تو کیا یہ اس کا حق نہیں اور کیا پوری دنیا بڑھتی ہوئی آبادی کے عفریت کے سامنے بند باندھنے کی بات کرتی ہے تو یہ جرم ہے یا آگہی اور پیش بندی ہے ؟ اور یہاں کی عورت ایسی بات کرے تو یہ جرم اور قابلِ شرم ہے ؟جنہیں ان پر اعتراض ہے وہ صرف اس سوال کا جواب شائستہ الفاظ میں فرما دیں کہ ان کی ماﺅں نے ایک خاص وقت کے بعد بچے جننے کیوں بند کر دیے ؟کیا سبھی کی سبھی طبی بنیادوں پر اَن فِٹ ہوچکی تھیں ؟ یا ان کی جسمانی اور سماجی دیواریں بلند ہوچکی تھیں یا پھر یہ ان کا شعور تھا؟ محترمہ کی ان باتون کا کم از کم میرے پاس اس کے ماسوا کوئی جواب نہیں تھا کہ ذو معنی یا ہیجان انگیزی کے بجائے الفاظ کے سادہ انداز سے مہذب چناﺅ زیادہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارے سینئرز سے تو ہمیں سکھایا ہے ۔ خواتین کے حقق کے حوالے سے کام کرنے والی سیاسی ایکٹوسٹ اور قانون دان عابدہ چودھری سے مکالمہ ہوا تو ان کا موقف تھا کہ عورت مارچچونکہ اجتماعی سوچ کے ساتھ ہوتا ہے ، اس میں کسی کی شارکت یا خیالات پر کسی جماعت یا گروپ کو پابند نہیں کیا جاسکتا ، نہ ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کس کی سوچ کیا ہے اور نہ ہی کتبے ، بینرز اور پلے کارڈ سکین کرنا ممن ہے اس لئے لوگ لے آتے ، ہماری جدوجہد سے میڈیا بھی وقاف ہے اور معاشرہ بھی تو ہمیں اپنی حد اور موقف میں کوئی پریشانی نہیں ہے البتہ یہ بات درست ہے کہ تہذیب ، تہذیب ہی ہوتی ہے ، عوامی ورکرز پارٹی کی شازیہ خان کا موقف بھی عابدہ چودھری سے مختلف نہیں ۔ یہ فرق روشن خیال اور ’روشن خیال پلس ‘ خواتین میں ہے عابدہ چودھعری اور شازیہ خان سے پہلے جن خواتین سے بات ہوئی تھی ان کا تعلق ’ روشن خیال پلس‘ سوچ سے تھا ، مجموعی طور پر جن خواتین سے بات ہوئی ان میں ایسی بھی تھیں جو ایک عرسے سے خواتین کے حقوق پر نہ صرف بات کرتی اور جدوجہد کرتی چلی آرہی ہیں لیکن ان کے الفاط نہ ذو معنی رہے نہ ہی وہ اب ایسے الفاظ پر مصر ہیں ، کچھ خواتین تو تھوڑے ہی عرصے میں نمودار ہوئی ہیں اور پہلے والی روشن خیال خواتین پر’ روشن خیال پلس‘ بن کر غالب دکھائی دیتی ہیں ، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مختلف این جی اوز سے بھی ہے اور ان کی تحریک اور جدوجہد ’سپانسرڈ‘ یا ’پیڈ ‘ کے طعنوں سے خالی نہیں ہے ، دوسری جانب شہر میں خواتین کے حوالے سے ایسے پوسٹربھی دکھائی دیتے ہیں جن پر خواتین کا دن یعنی آٹھ مارچ ’تکریمِ نسواں ‘ کے نام سے منانے کا اعلان کیا گیا ہے اور ان کے نعرے بھی مختلف ہیں۔ یہ جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین کی طرف سے لگائے گئے ہیں ، جماعت اسلامی کا اپنا موقف ہے ، کچھ مذہبی دھڑوں کا تو یہ موقف بھی رہا ہے کہ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منانا بھی غیر اسلامی ہے اور انگریزوں کے پیچھے چلنے والی بات ہے ۔ اس سکول آھات پر مجھے روشن خیال گروپ کی طرف سے کوئی تنقیدی جملہ سننے کو نہیں ملا ، دوسرے الفاظ میں دائیں، بائیں ، بازو سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ایک طرح سے اپنے اپنے انداز میں یہ دن منانا ایک صحت مندسرگرمی کہلاسکتا ہے لیکن اسے اس سے ذرا مختلف اور ایک دوسرے کا مقابلہ قراردیا جارہا ہے ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ریاستی ادارے خواتین کے عالمی دن پر دہشت گردی اور گڑ بڑ کے اندیشے بھی ظاہر کررہے ہیں ، کچھ لوگوں کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں خواتین کے گروپ باہم ٹکرا نہ جائیں ۔۔ جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا ؟یہ دن منایا جانا چاہئے ، بہتر سے بہتر انداز میں گفتگو ہونا چاہئے موثر سے موثر انداز میں ۔۔۔ بس کسی کی دل آزا ری نہیں ہونا ہے ۔۔
یہ تحریر کمیونیکیشن مسائل کی وجہ سے پبلش اور پبلک نہیں ہوسکی تھی کہ عورت مارچ کے انتظامات نظر سے گذرے، سیکورٹی کے نام پر ایک بار پھر پریس کلب کے دروازے بند اور محفوظ کیے گئے ، کم و بیش پانچ سو اہلکار ایس پی عہدے کے دو افسروں کی قیادت میں سیکیورٹی پر مامور تھے ، سب سے پہلے جو پلے کارڈ نظر سے گذرا وہ ”مردانہ کمزوری ،اینڈ آف سٹوری‘ تھا ، جن لڑکیوں نے پلے کارڈ تھام رکھا تھا ، وہ اس کی وضاحت سے قاصر تھیں ، یہ پلے کارڈ سیکیورٹی اہلکاروں نے ’محفوظ‘ کرلیا، کچھ دیر کے بعد ایک دوسری پوش خاتون نظر آئی جس کی شرٹ پر ایک سلوگن ’iwill,if you will” “پرنٹ تھا ، وہ فون پر بات کرتی تیزی سے گذر گئی، جس کے پیچھے ’میرا جسم ، میری مرضی‘ کا پلے کارڈ تھامے ایک نحیف لڑکی گذری ، اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن شائد ’دیفنس‘ کلاس نہ ہونے کی وجہ سے وہ عوامی کلاس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس کی توجہ کا مرکز وہ صاحب تھے جن کا تعلق مسیحی کمیونٹی کے ایک صاحب جنہوں نے بچہ اٹھا رکھا تھا اورفون پر بتا رہے تھے کہ میرا سٹاف پہنچ چکا ہے ، اس سے پہلے کچھ معمر خواتین دکھائی دیں ، ان میں سے دو نے روایتی انداز سے ہاف نقاب میں تھیں ۔ یہ وہ نقاب ہے جو میں اپنی فیملی میں دیکھ کر بچن میں سوچا کرتا تھا کہ کچھ گھریلو خواتین چہرہ چھپانے کی کوشش کیوں کرتی ہیں جبکہ تمام بڑے بزرگ انہیں پہچان کر نام لیکر پکارتے تھے ؟ بعد میں معلوم ہوا کہ یہخاندانی کلچر ہے ، ایک بار پوچھا کہ یہ کلچر میری پھوپھی پر لاگو کیوں نہیں ہوتا تو جواب ملا کہ وہ تمام بھائیوں کی لاڈلی ہیں اور نو بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہونے وجہ سے عملی طور پر ’نمبردارنی ‘ بھی ہیں ، جمیں نے ان بزرگ خواتین کے ہاتھوں میں کچھ پلے کارڈ دیکھے جو ’تعمیرِنو‘ نام کی تنظیم کے تھے ، وہخواتین والٹن سے آئی تھیں میں نے وہ پوسٹر ڈسپلے کرنے کو کہا اور ان معمر خواتین سے ان کے کام کاج کے حوالے سے دریافت کیا تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ سب ہماری میڈم فرحت ہی آکر آپ کو بتائیں گی ، جب میڈم فرحت آئیں تو وہ پلے کارڈ ڈسپلے ہوگئے جن پر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کے مطالبات درج تھے، میڈم فرحت نے بھی یہ وضاحت مناسب نہیں سمجھی کہ یہ معمر خواتین کیا اور کس کے گھر میں کام کرتی ہیں ؟ بظاہر وہ میڈم فرحت ہی کی ملازمائیں لگ رہی تھیں ۔کچھ ہی دیر میں این ایس ایف کے پرانے ساتھیوں کی جماعت پاکستان انقلابی پارٹی کے کچھ لوگ آگئے ، خواتین اور بچے بھی ساتھ تھے اور ان کے ہاتھ میں ایک بینر تھا جس پر دنیا بھر کے محنت کشوں بشمول خواتین کو متحد ہونے کا نعرہ درج تھا اور ایک نعرہ ’آﺅ محنت کش خواتین کے حقوق کے لئے مل کر جدوجہد کریں ،یہ بینر مردوں نے اٹھا رکھا تھا لیکن اسے ڈسپلے کرنے پر ایک لڑکی الینہ یا علینہ بھاگتی ہوئی آئی اور اس نے یہ بینر ڈسپلے کرنے سے روک دیا ، اس کا لہجہ بھی ناکے پر صرف کمائی کرنے کےلئے ڈیوٹی دینے والے کرخت لہجے کے سپاہی جیسا درشت تھا۔جس وقت میں یہ الفاظ ٹائپ کررہا تھا عین اسی وقت میری حاضری میری اہلیہ کےحضور منظور ہوچکی تھی جو مجھ سے میری آج کی مصروفیات پوچھ رہی تھیں ، میں اسے سلوگن بتائے تو جوان آیا کہ اصل سلوگن یہ بنتا ہے” ۔My body My honour that is supposed to be a woman“ انہوں نے بھی بڑے وہابی انداز میں جواب دیا ، اس مارچ میں دیگر نعرےاس طرح تھے ، ہم ریاست کی ذمہ داری ہیں ، ریاست کہاں ہے ؟ ؛، مفت تعلیم ، مفت صحت ، مفت دالاطفال، عورت می معاشی خود مختاری ترقی کی ضامن ہے ، اگر عورت ناقص العقل ہے تو اولاد کی تربیت کی ذمہ دار کیوں ؟، عورت کو عزت دو، مہنگائی نے عورت کو ماردیا، وغیرہ وغیرہ ۔۔مظاہرہ ریلی سے پہلے رنگ پکڑ رہا تھا مختلف الخیال لوگ آ جارہے تھے ، اس مظاہرے کو مجموعی طور پر کچھ لڑکے اور لڑکیاں کررہی تھیں ، عام دنوں میں سرکوں پر نظر آنے والے کارکن اور قائدین اپنے اپنے لوگوں کو اپنے بینر تلے رہنے کی ہدایات دے رہے تھے جو مجموعی طور پر کچھ خاص نعروں سے محتاط ہوتے دکھائی دے رہے تھے،
خواتین آجا رہی تھیں ، مرد بھی آرہے تھے ، بڑی بڑی گاڑیاں بھی تھیں اور مشکل حالات ، شدید موسموں سے لڑنے والے پرانے کارکن بھی آ رہے تھے کوئی کسی سے لِفٹ لیکر کر کوئی پیدل آرہا تھا ، پریس کلب کے باہر ایک خاص قسم کا میلہ تھا ، کچھ دوستتبصرہ کررہے تھے کہ آج پریس کلب بھی ڈیفنس لالک جان چوک بنا ہوا ہے اور آج ڈیفنس کلاس یہاں پر قابض ہے ۔ ہر شخص کی اپنی اپنی سوچ اور رائے ہے ، جس کے اظہار کا سبھی کو حق حاصل ہے ، تھکاوٹ اور بھوک مزید برداشت نہیں ہورہی تھی اور یہ میلہ اس سوچ کے ساتھ کہ خواتین کا عالمی دن بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے ،جس کسی کو کسی کی بات پسند نہیں وہ اس طرف دھیان نہ دے برداشت کرے ، برداشت سب سے مثبت سوچ ہے لیکن اسے یکطرفہ نہیں لاگو کرنا آسان نہیں، یہیں چھوڑ کر پریس کلب میں پناہ گزین ہوا ، پریس کلب میں داخل ہوتے ہی مجھے بہت سی خواتین یاد آئیں جنھوں نے پوری زندگی خواتین کے حقوق کی بات کرتے گذاردی اور مخالفین میں بھی باوقار رہیں ، وہ جواں بھی تھیں حسین بھی تھیں ، انہیں جسموں کا سہارا نہیں لینا پڑا تھا ، اب عورت جسم کا سہارا لینے پر مجبور کیوں ہوگئی ہے ؟ اس کے معاشی اور سماجی تمام پہلوﺅں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، غور کون کرے گا ؟ جس کا دماغ اسی کی مرضی ، جس کا اختیار اس کی مرضی ۔۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔