jis haal mein jeena mushkil ho

جس حال میں جینا مشکل ہو۔۔۔

تحریر: عبدالرحیم

صحافت کی نگری پرپرنٹ میڈیا کا راج طویل عرصہ تک جاری رہا ۔ پھر وقت نے انگڑائی لی،صدرپرویز مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کو صحافت کی نگری میں خو ش آمدید کہاگیا ۔ میڈیا کے موجودہ چہرے کو دیکھتے ہوئے کپتان کی تبدیلی یاد آتی ہے ۔ پتہ نہیں یہ اقدام مشرف کی نیکی میں شمارکی جائے گی یا اسے سیئات  میں گنا جائے گا;

بہر کیف وقت نے ڈائری،قلم قرطاس ،ٹریسنگ پیپراورکتابت کی ہمک دمک کو ماند کردیا ۔ پھر ٹی وی،کیمرہ اورڈی ایس این جی کا شوروغوغا شروع ہوا ۔ کارصحافت کے وابستگان کی دلوں میں بھی امنگیں انگڑائی لینے لگیں ،اچھی تنخواہ کے ساتھ رعب ودب ،کروفر اورپرکشش مستقبل کا ہرکوئی طالب ومتمنی تھا ۔

یہ 2012 کے ایام تھے ،اخبارات اورمیگزین سے وابستہ میدان صحافت کے شاہ سوار، ٹی وی چینلز کی طرف دوڑ رہے تھے ۔ اخبارات کے ڈیسک خالی ہورہے تھے ۔ اورچینلز کے آباد ۔ ۔ ۔ ایک سرد شام میں ہماراخواب بھی پایہ تکمیل کو پہنچ رہاتھا ۔ ہم نے اچھے مستقبل کی خاطر اداس اوربوجھل قدموں سے’’ امت‘‘ کو الودع کیا اور،جیونیوزسے وابستہ ہوگئے ۔ اور کچھ عرصہ میں بول کے ہوگئے ۔ ۔ دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ اورڈیجیٹل میڈیا نے صحافت کے میدان میں اتھل پتھل مچایا ۔ ۔ کچھ ملک کے معاشی حالات،وقت کی تبدیلی اور سیاسی محرکات نے ٹی وی چینلز کو بھی بحران میں مبتلا کیا ۔ چینلز واخبارات کی بندش کے ساتھ ڈاءون سائزنگ اوربیروزگاری سے ہزاروں ورکرز متاثر ہوئے ہیں ۔ ان منفی حالات نے براہ راست میڈیا ورکرزکو گھائل کیا ہواہے،بیروزگاری اورمعاشی پریشانی کے باعث نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں ،گاہے بگاہے اس کا مشاہد ہ بھی ہوتاہے،راقم نے جب اول اول بو ل ٹی وی کو جوائن کیا تو چند ماہ میں ایگزیکٹ اسکینڈل کیس کے باعث بول پربرا وقت آیا تھا ۔ نشریات معطل تھیں ۔ سیلریاں بند تھیں اورلوگوں کا کیریئر داءو پر لگاہوا تھا ۔ اسٹریس کا ماحول تھا ۔ (نیوز روم میں تو ویسے ہی اکثر اوقات اسٹریس کا ماحول ہوتاہے) ۔ بول کیفے میں بول نیوز سے متعلق منفی خبریں دیکھتے دیکھتے ایک ورکرزبول کیفے میں گرپڑاتھا،جسے فوری طورپرایمبولینس میں اسپتال منتقل کیا گیا،میرے سامنے نیوز روم میں ایک صاحب جن کا ایم سی آر سے تعلق تھا،کرسی پربیٹھے بیٹھے گرگئے ۔ یہ غالبا 2015 تھا ۔ بہر کیف میڈیا ورکرز کے لیے ایسے حالات تاحال برقرار ہیں ،ایسے میں کسی ساتھی کے حوالے سے صدمے والی خبر مزید اداس کردیتی ہے ۔

دھیمے مزاج اوردائمی مسکراہٹ والے نوجوان کی موت کی افسوس ناک اطلاع مجھے چند روز قبل سوشل میڈیا کے ذریعے ملی ۔ نیوز روم میں اس کے ساتھ کام کیاتھا ۔ بیروزگاری کاخدشہ تھا،مگر وہ بیروزگار نہیں ہواتھا ۔ لیکن اس کا مسئلہ بیروزگاری نہیں تھا ۔ کہتے ہیں کہ صحافی حساس ہوتے ہیں ۔ شاید معاشرے کے تضادات اورسفاکیت وہ برداشت نہ کرسکا اوراپنی زندگی کا خاتمہ کرڈالا ۔

معاذ کے ساتھ بیتے دنوں کے تاثرات اورجذبات اس کے کولیگ کے کیاہیں ، ذرا آپ بھی ملاحظہ کریں ۔

’’معاذ نے میرے ساتھ کبھی کسی انسان سے متعلق گفتگو نہیں کی،بات ہوتی تو مختلف نظریات پر، زندگی پر، ٹیکنالوجی سے متعلق، ابھی چند دن قبل اس نے مجھے پروگرامنگ لینگویج پاءتھن اور پی ایچ پی کے درمیان فرق سمجھایا تھا، یہ ہماری آخری ملاقات تھی ۔ اللہ میرے دوست کی مغفرت فرمائے، اس کے گھر والوں کو صبر دے ۔ تم بے حد اداس کرگئے ہو معاذ

’’زید زمان حامد کے عشق سے لیکر دنیا کے ہرمذہبی نظریے سے بےزاری تک ۔ ۔ ۔ معاذ ذہنی تغیرات کا کا مجموعہ مگر بلا کا ذہین لڑکا تھا ۔ ۔ ۔

مجھے اس سے بحث کرنے میں مزہ آتا تھا کیونکہ وہ ہر جملہ ناپ تول کر اور سامنے والے کی قوت برداشت کو بھانپ کربولا کرتا تھا ۔ ۔ ۔

تصورخدا پر، مذہب پر، ریاست پر، سیاست پر ۔ ۔ ۔ ابھی بہت سی بحث باقی تھی بھٹی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تم نے کیا کرڈالا

کاش کہ تیری عمل کرنے کی صلاحیت بھی تیرے ذہن اور معلومات کی طرح وسیع ہوتی دوست ۔ ۔ ۔

اللہ آخرت کے معاملات میں آسانی فرمائے ۔ آمین

معاذ تم کو ابھی مجھ سے بہت سی بحث کرنی تھی، تمہیں مجھ کو ابھی بہت زچ کرنا تھا;464646; اور مجھے تمہیں تشکیک سے تحقیق اور پھر حق کی جانب لانا تھا یہ سالا ڈپریشن بیچ میں کہاں سے آگیا شنکر ۔ ۔

میری اور تمہاری آخری بحث ہی یہی تھی کہ اپنی جان لینے والا کمزور ہوتا ہے یا اس کیلیے جرات چاہیے، تمہیں بحث جیتنے کیلیے اپنی جان لینی پڑی کیا; یا تم کو میڈیا کی ظالم چکی کھا گئی; معاذ; میرے معاذ; میرے شنکر; تم نے اچھا نہیں کیا

یا اللہ،; یارحیم و کریم; یہ ایک ناراض سا،، اکھڑ سا بچہ آیا ہوگا آپ کے پاس; اس کے ساتھ تھوڑا نرمی کا معاملہ کریے گا; دنیا بھر سے ناراض بھی ہے; اور اپنی کہنےسے شرماتا بھی ہے; آپ کے پاس ریفرنس نہیں چلتا،، لیکن پھر بھی گڑگڑا کر عرضی ڈال رہا ہوں کہ اسے اپنی رحمت کا معاملہ فرمائیے گا

کراچی کے سرفہرست میڈیا گروپ میں کام کرنے کے باوجود کیابے چینی تھی ۔ کیسا اضطراب تھا ۔ کس مایوسی نے ایک میڈیا ورکر کو موت کے منہ میں جانے پرمجبورکرڈالا

یہ سب تاثرات اس کے دوستوں ساتھیوں کے ہیں اوریہی میرے بھی ہیں ،اورہراس ورکرزکے ہیں ،جس کا کوئی ساتھ جدا ہواہو ۔ بیروزگاری اورمعاشی پریشانی اب ملک کے ہرفرد کا مسئلہ بن چکاہے ۔ جن کی فیکٹریاں اورکاروبار چل رہے ہیں انہیں بھی اپنی فیکٹری اورکاروبار بند ہونے کا خدشہ ہے ،ورکرز تو شمار میں نہیں ،لیکن کاروبار حیات تو اسی کا نام ہے ۔ خوشی ،غمی،بیروزگاری ساتھ ساتھ ہے ۔ ہ میں ایسے ہی جینا ہے ۔ نشیب وفرازکا نام ہی تو زندگی ہے ۔

جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے ۔ ۔اللہ معاذ کے لیے آگے کے راستے آسان فرمائے ۔ آمین ۔ ۔(عبدالرحیم)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں