کراچی میں اجمیر نگری پولیس نے سوشل میڈیا پر ’اشتعال انگیز ی اور جھوٹی خبریں‘ چلانے پر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ 2016 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے کے 21 نیوزچینل کے رپورٹر جنید ساگر قریشی کو گرفتار کر لیا۔پولیس کے مطابق شکایت کنندہ اے ایس آئی طارق ممتاز نے واٹس ایپ پر ویڈیو دیکھی۔فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق ویڈیو بیان میں جنید ساگر نے مبینہ طور پر دعویٰ کیا کہ سرسید تھانے کی حدود میں ڈمپر نے ایک خاتون کو کچل دیا، جس کے نتیجے میں عوام مشتعل ہو گئے اور انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا، انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے دوران ایک اسٹیشن ہاؤس افسر کے ساتھ دو دیگر پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔بیان کے مطابق تصدیق کرنے پر معلوم ہوا کہ پولیس کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور ایک خاتون کے کچلنے کی خبر بھی جھوٹی نکلی۔ترجمان نے مزید کہا کہ صحافی اشتعال انگیز اور غلط معلومات پھیلا رہا تھا اور اس کے خلاف پیکا (2016) کی دفعہ 21 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔دوہزارسولہ میں متعارف ہونے کے بعد سے پیکا ایکٹ کو ’کالا قانون‘ کہہ کر بڑے پیمانے پر تنقید کی جاتی رہی ہے، جو بنیادی طور پر اختلاف رکھنے والوں کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا، اس کے نفاذ کے بعد سے 8 سالوں میں، اسے سیاست دانوں، صحافیوں، رائٹس کارکنان اور یہاں تک کہ عام سیاسی کارکنوں کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔قومی اسمبلی نے جنوری میں ملک کے سائبر کرائم قوانین میں ایک متنازع ترمیمی بل منظور کیا تھا، جب پی ٹی آئی کے قانون سازوں اور صحافیوں نے کارروائی سے واک آؤٹ کیا تھا۔جنید ساگر قریشی پیکا کے الزامات کا سامنا کرنے والے تازہ ترین صحافی بن گئے ہیں، 20 مارچ کو سماء ٹی وی کے سابق نیوز ڈائریکٹر اور رفتار پلیٹ فارم کے بانی صحافی فرحان ملک کو ان کے یوٹیوب چینل پر مبینہ طور پر ’ریاست مخالف‘ مواد چلانے کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا، اس پر پیکا کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔چھبیس مارچ کو اردو نیوز کے لیے کام کرنے والے صحافی وحید مراد کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گرفتاری ظاہر کردی تھی اور انہیں اسلام آباد کی ایک عدالت میں پیش کیا تھا، جس نے ان پر پیکا کی دفعہ 9، دفعہ 10، دفعہ 20 اور 26 اےکے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔