تحریر: سید عارف مصطفیٰ
1- کم ترقی یافتہ یا پسماندہ ممالک میں مہینے کی آخری تاریخوں میں بولے گئے زیادہ تر جھوٹ قابل معافی ہوتے ہیں-
2- منمناتے سچ سے دہاڑتا جھوٹ بہتر ہے کیونکہ خود اعتمادی سے محروم لہجے میں بولے گئے سچ کو سفید جھوٹ سے زیادہ ذلت نصیب ہوتی ہے –
3- جھوٹ شروع میں ضرورتاً بولا جاتا ہے ، پھر مصلحتاً ہے اور پھر ساری عمرعادتاً ۔۔۔
4- کچھ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ جھوٹ بولنا حقوق نسوانی کا لازمی حصہ ہے ۔۔۔ عمر اور اشیاء کی قیمت بتانے کا معاملہ اسی میں شامل ہے۔۔۔
5- بچوں کا جھوٹ شرارت ، بیگم کا جھوٹ مصلحت اور باس و حکمران کا جھوٹ حکمت کہلاتا ہے ۔۔۔ جبکہ عام عوام کا جھوٹ صرف خباثت ہی کا درجہ پاتا ہے-
6- سائنسی انداز میں یوں سمجھنا بہتر ہے کہ سچ آکسین ہے اور جھوٹ کاربن ڈائی آکسائیڈ ۔۔۔!
7- جب کوئی دوران گفتگو یہ کہے کہ ‘ اللہ معاف کرے کہنا تو نہیں چاہئیے’ تو سمجھ لیجیئے کہ وہ زبردست جھوٹ بولنے کا آغاز کررہا ہے ۔۔۔
8- ہمارے یہاں جھوٹ کی نرسری ٹی وی اور یونیورسٹی پارلیمنٹ ہے –
9- زیادہ تر پریمی ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں ، نہ بولیں تو بات نکاح تک نہیں پہنچ پاتی ۔۔
10- اگر کسی کی شاعری میں سے تمام جھوٹ نکادیں تو شاعری نہیں بچتی ۔۔ رہنے دیں تو شاعر نہیں بچتا ۔۔۔
11-جھوٹ پکڑنے والے آلے کا سائنسی نام ‘لائی ڈیٹیکٹر’ اور سماجی نام زوجہ ہے-
12- ہمیشہ سے بڑوں کے جھوٹ کو سچ ثابت کی ڈیوٹی چھوٹوں کے نصیب کا حصہ ہوا کرتی ہے-
(سید عارف مصطفیٰ)