بلاگ: چودھری محمد اشرف نوید
صحافت ایک مقدس پیشہ ھے اور صحافی معاشرے کا آئینہ دار ھوتا ھے سچا صحافی آج بھی مظلوم اور عتاب کا شکار ھے اسکا خون سڑکوں پر بہا دیا جاتا ھے بڑے بڑے میڈیا گروپ اپنے مفادات کے لیے پروگراموں کو مرضی سے ترتیب دیتے ہیں ہم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا کہ ARY گروپ نے جن کو غدار وطن اور کرپٹ قرار دینے کے لیے پروگرام کیے GEO نیوز نے ان ہی لوگوں کو محب وطن اور ایماندار ثابت کرنے کے لبے پروگرام کیے ایک چینل جنگ کا سماں پیش کرتا تھا تو دوسرا امن کی راگنی الاپ رہا ھوتا تھا مفادات کی اس جنگ میں صحافی اور صحافت استعمال ھوئی ۔ اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ لاھور تا اسلام آباد ۔ کراچی تا پشاور صحافی تمام تر اختلافات کے بعد بھی ایک پیج پر تھے جس کا مظاہرہ سپریم کورٹ میں ڈاکٹر شاہد مسعود کیس میں بھی دیکھنے کو ملا ۔ اس وقت اگر صحافت شاہد مسعود کی بیک پر نہ ھوتی تو وہ آج پروگرام نہ کررہا ھوتا ۔ جبکہ جھنگ میں صحافت کا میعار اور اصول شائد دوسری دنیا سے الگ ہیں یہاں پر اتحاد کا واضح فقدان ھے اور جو موقع پر موجود نہ ھو اس پر تبرا ثواب سمجھا جاتا ھے اور جو حق و سچ کی بات کرے اسکا شمار باغیوں میں ھوتا ھے ۔پریس کلب صحافتی برادری کا مشترکہ ادارہ ھے اسکا احترام ایسے ہی لازم ھے جیسا کہ کسی بھی اسمبلی کا اسکے ممبران کے لیے لازم ھے دنیا بھر میں پریس کلب یونین کا ذیلی ادارہ ھوتا ھے اس بات کا انکار جھنگ کی صحافت کے شہتیر بھی نہیں کر سکتے ۔ یونین سمیت تمام ذیلی ادارے صحافت اور صحافیوں کی فلاح کے لیے کام کرتے ہیں صحافت میں حسد کام کی وجہ سے ھو تو اچھا ھے مگر مخالفت برائے مخالفت درست نہیں اور پھر باہر کی دنیا کو یہ باور کروانا کہ ہمارا آپس میں اتفاق نہیں ۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگانا وہ بھی جھوٹے یہ کہاں کی صحافت ھے؟ جب مہر ریاض نول کا معاملہ شروع ھوا ہم نے اس وقت ہی یونین و پریس کلب کے ارباب اختیار سے سنجیدگی سے اس معاملے کو حل کرنے کا مطالبہ کیا تھا معاملہ مس ہینڈل ھوا دونوں اطراف سے صلح کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ھوئی بیک ڈور رابطے بھی اس مسلہ کو حل نہ کر سکے اسکے بعد گروپ بازی کو ختم کرنے کے لیے ایک سنجیدہ کوشش ھوئی جب شیخ غلام اکبر نے عمرہ پر جانے سے قبل لیاقت علی انجم کو فون کیا اور یہاں تک کہا کہ بچے ہیں انکا خیال رکھنا ۔ لیاقت علی انجم تعلیم یافتہ شخص ھے مگر شیخ غلام اکبر کے فون کا اس نے کیا مطلب لیا ہمیں معلوم نہیں مگر معاملات مزید الجھ گئے ۔آج ہم ایک بات کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں کہ لیاقت علی انجم کا گروپ صرف اس وجہ سے مضبوط ھے کہ انکا ایک دوسرے پر اعتماد ھے اور وہ منظم طریقہ سے اپنے گروپ کو چلا رہا ھے جبکہ دوسری طرف ہر بندہ چوہدری بننے کے چکر میں ھے اور خود نااتفاقی کا شکار بھی ہیں ۔ جب یونین اور پریس کلب کی جانب سے چند دوستوں کو نوٹس جاری ھوئے تو وہ غلط تھا اصول کے مطابق سب دوستوں سے ریکارڈ طلب کیا جاتا اور جو نہ دے سکتا اسکو بذریعہ نوٹس مہلت دیتے اور کیا جو فری لانسر صحافی ھوتا ھے اسکا پریس کلب پر کوئی حق نہیں ھوتا۔؟اور اگر پھر بھی کوئی دوست رولز پر عمل نہ کرتا تو اسکی وجوہات معلوم کرنی چاہیں اگر ایک صحافی سال کا 3600 روپیہ آپ کو دیتا ھے اور آج کسی معاشی وجہ سے کوئی اخبار نہیں لے سکتا تو ادارہ اپنے فنڈ سے اسکی مدد کردے جبکہ ادارہ صحافی کی فلاح کے لیے ھی بنایا گیا ھے ۔ ممبرشپ فیس 7500 روپے بہت زیادہ ھے کئی ورکنگ جرنلسٹ اپنی فائل صرف فیس زیادہ ھونے کی وجہ سے جمع نہیں کراتے اور جو فائل جمع ھونے کے بعد بھی سلیکٹ نہ ھوں انکی فیس قابل واپسی ھونی چاہیے ۔ پریس کلب کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بذریعہ یونین و پریس کلب صحافیوں کی فلاح اور اتحاد پر کام ھونا چاہیے ۔ پچھلے کئی دنوں سے مہر نوید سدھانہ اور جاوید گوانس کے درمیان چل رہا ھے وہ ہم سب کی بدنامی ھے ایسے مسائل کو بیٹھ کر طے کرنا ضروری ھے صحافی حضرات بھی ایک دوسرے کا بغض ادارے پر نہ نکالا کریں اس سے کونسا مسلہ حل ھو جانا ھے آج جو لوگ ہیں کل نہیں ھوں گے مگر ادارہ رھے گا ۔(چودھری محمد اشرف نوید)۔۔
(بلاگر کی تحریر کی ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔