تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
شہباز شریف کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے اور قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کو تقریر کرتے دیکھ کر مرحوم ڈاکٹر ظفر الطاف بہت یاد آئے۔
شہباز شریف صاحب کو شکایت ہے کہ ایف آئی اے ان کے ساتھ بدسلوکی کررہی ہے۔ یاد ہے کہ ڈاکٹر ظفرالطاف کی قائم کردہ ”ہلہ‘‘ دودھ کمپنی کے ارکان پر اینٹی کرپشن پنجاب کے ہاتھوں جھوٹے پرچے کرائے گئے اور تشدد کا نشانہ بنوایا گیا اور ڈاکٹر صاحب انہیں بچانے گئے تو پیغام بھیجا گیا کہ آپ دور رہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف باز نہ آئے تو ان پر بھی بہتر برس کی عمر میں انہی شہباز شریف کی حکومت میں مقدمہ درج کر دیا گیا جو اَب دہائی دے رہے ہیں۔ ظفر الطاف کے گھر پر پولیس سے چھاپے مروائے تھے۔ میں نے پرویز رشید صاحب سے کہا تھاکہ یہ زیادتی ہورہی ہے۔ کہنے لگے: پتہ کراتا ہوں۔ اگلے دن بتایا کہ واقعی ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں بے قصور ہیں۔ اس سے زیادہ پرویز رشید کچھ نہ کرسکتے تھے کیونکہ یہ معاملہ شہباز شریف اور ان کے بچے خود مانیٹر کررہے تھے۔ اس رنجش کے پیچھے ایک ہی وجہ کارفرما تھی کہ ان کا نیا نیا دودھ کا برانڈ لانچ کیا گیا تھا جسے لاہور میں مارکیٹ کرنا تھا۔ لاہور کی مارکیٹ پر ادارہ کسان کا مذکورہ دودھ راج کررہا تھا کیونکہ یہ خالص تھا اور بڑے برانڈز سے آدھی سے بھی کم قیمت پر دستیاب تھا۔ جب تک اس کا توڑ نہ کیا جاتا حکمران خاندان کے دودھ کی جگہ شہر میں نہیں بنتی تھی‘ لہٰذا کمپنی پر چڑھائی کر دی گئی۔ اس کمپنی کا پنجاب حکومت کے ساتھ اشتراک تھا‘ اسے وقت سے پہلے ختم کرکے‘ چند مقدمے بنا کر سارے عملے کو پکڑ کر اندر کرا دیاگیا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے ان کی ضمانتوں کیلئے کوشش کی تو ان کے خلاف بھی پرچہ دے دیا۔
جب پانچ دسمبر 2015ء کو ڈاکٹر صاحب نے آخری سانس لی تو وہ قائم کیے گئے جھوٹے مقدموں میں ضمانت پر تھے اور چند دن پہلے لاہور سے پیشی بھگت کر آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت مشکلیں اور مصیبتیں دیکھیں لیکن انہیں کبھی ڈیپریس نہ دیکھا۔ ایک بہادر انسان کی طرح زندگی گزاری بلکہ یوں کہیں نوکری بھی اپنی شرائط پر کی اور زندگی کو بھی اپنی مرضی اور شرائط پر بسر کیا۔ ان کے ساتھ اٹھارہ برس کے تعلق میں انہیں پہلی اور آخری بارافسردہ دیکھا۔ کہتے تھے :یار ان دونوں بھائیوں (نواز شریف اور شہباز شریف) نے ابا جی مرحوم (چوہدری الطاف) کے ان کے خاندان سے 1947ء سے تعلقات کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ وہ اتفاق فاؤنڈری کے عمر بھرلیگل ایڈوائز ر رہے۔ جو قانونی مشاہرہ پہلے دن طے ہوا تھا وہی آخری دن تک رکھا کہ تعلق اہم تھا۔ ان بھائیوں نے ایک لمحے میں سب تعلق ایک طرف رکھا اور ڈاکٹر ظفر الطاف کے گھر پر چھاپے مروائے۔
اگرچہ خواجہ آصف کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن جب انہوں نے قومی اسمبلی میں کہا کہ ان کی عمر بہتر سال ہے اور وہ کچھ دن پہلے قید کاٹ کر آئے ہیں تو ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آئے کہ ان کی عمر بھی بہتر برس تھی جب محکمہ اینٹی کرپشن کو کہہ کر ان پر پرچے کرائے گئے تھے۔میری اُس وقت شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سے بات ہوئی تھی‘ انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں پوچھ گچھ کرائی ہے اورڈاکٹر صاحب کا اس معاملے میں کوئی رول نہیں۔ مطلب وہی تھا کہ شریف خاندان کو غصہ تھا کہ جب حمزہ اور سلمان جیسے لاڈلے لاہور میں دودھ دہی اور انڈوں کے کاروبار پر قبضہ جمانا چاہتے تھے تو ڈاکٹر ظفر الطاف کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ ان کے سامنے کھڑے ہوتے اور مذکورہ دودھ کمپنی کو بچانے کی کوشش کرتے جو پاک پتن اور قریبی علاقوں سے ہزاروں کسان خواتین سے دودھ خرید کر انہیں empower کررہی تھی۔
جب حکمران کاروبار کرے گا تو پھر مارکیٹ میں باقی تاجر بوریا بستر باندھ لیں گے کیونکہ اب ان کی ایک نہیں چلنے والی۔ اُن دنوں حمزہ یہی کررہا تھے کہ دودھ دہی‘ انڈے‘ مرغی‘ چینی‘ ہر جگہ انہی کا سکہ چل رہا تھا۔ وہی ریٹ طے کرتے تھے اور وہی پرافٹ۔اب جب پچیس ارب روپے منی لانڈرنگ کا سکینڈل سامنے آیا ہے تو پتہ چلا ہے کہ حمزہ تو دراصل دودھ‘ دہی‘ انڈوں کی پرچون کی دکان چلا رہا تھا۔ اصل تھوک کا کاروبار تو سلمان شہباز کر رہا تھا۔اب باپ بیٹے کو شکایت ہے کہ نیب اور ایف آئی اے ان سے ناروا سلوک کررہی ہے۔
نیب کی کیا مجال کہ وہ شریف خاندان سے برا سلوک کرے۔ آپ کو کہیں سے لگا کہ شہباز شریف چھ ماہ تو حمزہ اٹھارہ ماہ قید میں گزار کر آئے ہیں؟ حمزہ شہباز کو دیکھ کر تو لگتا ہے وہ یہ عرصہ جنیوا یا سوئٹزر لینڈ چھٹیاں منانے گئے تھے۔ شہباز شریف بھی پہلے سے زیادہ تروتازہ ہو کر لوٹے ہیں۔ ان میں انرجی پہلے سے زیادہ بھر گئی ہے۔ جب وہ پریس کانفرنس کررہے تھے تو لگ تھا جوانی لوٹ آئی ہے۔مریم نواز کو نیب نے بلایا تو انہوں نے جتھا ساتھ لیا اوروہ پتھرائو کرایا کہ دوبارہ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہانہیں بلاتا۔ کیپٹن صفدر نے بھی یہی روٹ لیا اور نیب کو دو تین دھمکیاں دیں۔ مولانا فضل الرحمن کو احتساب کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے بھائی لوگوں کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے دھرنے کے دھمکی دی‘ احتساب ٹھس ہو گیا۔
انویسٹی گیشن والے کہتے ہیں‘ سر آپ شریف لوگ کہاں دفاتر میں دھکے کھائیں گے‘ ہم آپ کو سوالنامہ بھجوا دیتے ہیں۔ مرضی سے جب وقت ملے تو بھر کر بھجوا دیجیے گا۔ اب اس سے زیادہ تعاون ایف آئی اے کیا کرے؟ کیا یہ رعایت کسی عام پاکستانی کو مل سکتی ہے یا کبھی دی گئی ہے؟ عام آدمی ان کے ہتھے چڑھ جائے تو حشر نشر ہو جاتا ہے اور یہاں شریفوں کے منت سماجت ہو رہے کہ سر جی چند سوالات کا جواب دے دیں اور سر جی اس کو بھی گستاخی سمجھتے ہیں۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کو دھمکی دی جاتی ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ اندازہ کریں ڈائریکٹر صاحب کو یہ دھمکی میرے گائوں کے چچا خدابخش قصائی نے اسی لہجے میں دی ہوتی تو اس کا کیا حشر ہونا تھا؟ افسران سیانے ہیں کہ منہ دیکھ کر ہاتھ جوڑتے اور پائوں پکڑتے ہیں اور منہ دیکھ کر تھپڑ مارتے ہیں۔ اب شہباز شریف نے ایف آئی اے کو آگے لگایا ہوا ہے اور اس ادارے کے افراد اور شہزاد اکبر ٹی وی پر بیٹھے وضاحتیں دے رہے ہیں کہ شہباز شریف کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی گئی۔ کبھی آپ نے ان کو کسی عام پاکستانی کے لیے ایسا معذرت خواہانہ لہجے میں وضاحت دیتے دیکھا یا سنا ہو یا یہ کہتے سنا ہوکہ سوالنامہ گھر بھیج دیں گے آپ دفتر نہ آئو؟
ہوسکتا ہے میرے بہت سے پڑھنے والے کہیں کہ یک طرفہ احتساب ہو رہا ہے۔ حکومت کے درجن بھر سکینڈلز آئے تو کسی وزیر پر ہاتھ نہیں ڈالا‘ مگر نواز لیگ کی پوری کابینہ جیل میں ڈال دی۔ یاد آیا یہی نواز شریف 1997ء میں دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے زرداری اور بینظیر بھٹو کا اسی طرح احتساب شروع کیا جیسے آج کل ان کا اپنا ہو رہا ہے تو رولا پڑ گیا کہ یک طرفہ کیوں‘ سب کا احتساب کرو۔ اس پر معروف کالم نگار اردشیر کائوس جی نے لکھا تھا کہ رولا نہ ڈالیں‘ نواز شریف کو زرداری اور بینظیر بھٹو کا یک طرفہ احتساب کرنے دیں‘ شریفوں کا احتساب کوئی اور حکمران آ کر کرے گا۔ وہی ہوا شریفوں کا احتساب جنرل مشرف نے کیا‘ لہٰذا تحریک انصاف کے درجن بھر سکینڈلز میں ملوث جن وزیروں خلاف کارروائی نہیں ہو رہی یا نیب اور ایف آئی اے ان کا احتساب نہیں کر رہے تو پریشان نہ ہوں‘ تحریک انصاف کو شریفوں کا احتساب کرنے دیں‘ موجودہ حکومت اور ان کے لاڈلوں کا احتساب کوئی اور کرے گا۔ پاکستانی تاریخ تو کم از کم یہی کہتی ہے۔(بشکریہ دنیا)۔۔