علی عمران جونیئر
دوستو،ایک زمانہ ہوا، ٹی وی پر ٹوتھ پیسٹ کا ایک اشتہار آیا کرتا تھا، جیت گیا انگلش ،ہار گئی مہنگائی۔۔ یعنی اشتہار میں یہ بتایا جارہا تھا کہ انگلش ٹوتھ پیسٹ اتنا سستا ہے کہ موجودہ مہنگائی بھی اس سے ہار گئی ہے۔ پھر ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا، پیپسی کا اشتہار سوشل میڈیا بھی حد سے زیادہ وائرل ہوا، کس نے کہا تھا پانچ روپے کم کردو۔۔ اب تو پانچ روپے ختم ہوچکے ، پانچ کا سکہ ہے وہ بھی کبھی چلتا ہے کبھی نہیں چلتا۔ ورلڈ آف سٹیٹسٹکس نے دنیا بھر میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کر دیے۔اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، 38 فیصد شرح کے ساتھ پاکستان کا دنیا میں چھٹا نمبر ہے۔وینزویلا عالمی سطح پر مہنگا ترین ملک بن گیا، مہنگائی کی شرح 436 فیصد ریکارڈ کی گئی اوپیک ممبر ملک وینزویلا امریکی پابندیوں کے سبب معاشی مشکلات کا شکار ہے۔رپورٹ کے مطابق لبنان 269 فیصد افراط زر کی شرح سے دوسرا مہنگا ترین ملک قرار دیا گیا، شام میں مہنگائی بڑھنے کی شرح دنیا میں تیسری تیز ترین 139 فیصد ہے جبکہ پاکستان اڑتیس فیصد مہنگائی کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ورلڈ آف سٹیٹسٹکس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مہنگائی 2 اعشاریہ 8 فیصد سے بڑھ رہی ہے، برطانیہ میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 8.7 فیصد، بھارت میں 4.24 فیصد ریکارڈ ہوئی۔اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد قوت خرید میں ایک فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ امریکہ میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
یہی نہیں، پکچر ابھی باقی ہے دوست، شہری آلودگی کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی میں 188ممالک میں ہم 136ویں نمبر پر۔ عدل و انصاف میں 140میں سے 129نمبر پر۔ غربت میں 121میں سے 99نمبر۔ ماحولیات میں 180میں 176۔ کرپشن۔ بد عنوانی لوٹ مار میں 180 ممالک میں 140نمبر پر۔ آزادی صحافت میں 180میں سے 150ویں نمبرپر۔ شرح خواندگی 197میں 173واں نمبر۔ تعلیم میں 188میں سے 164واں نمبر۔ کیا ہمیں احساس ہے کہ ہم دوسروں سے کتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔جمہوریت کا بہت شور ہے۔ آمریت کے خلاف جدو جہد کے بہت دعوے ہیں۔ جمہوریت میں بھی ہم آزاد نہیں ہیں۔ عالمی ادارے 100میں سے صرف 37نمبر دے رہے ہیں۔ یہ بھی کچھ زیادہ ہی ہیں۔ بہت سے تحقیقی ادارے قائم ہی اس لیے کیے گئے ہیں کہ وہ فرد کی اہمیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ جیتے جاگتے انسان کو زندگی کی کیا سہولتیں میسر ہیں کیا نہیں ہیں۔ وہ سارا سال اس کا اندازہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک مستند ادارے کے مطابق 131معیشتوں میں پاکستان 89 ویں نمبر پر ہے۔
باباجی نے پچھلے دنوں ہمیں حیران کن خوش خبری سنائی۔ ہم سب ان کی بیٹھک میں براجمان تھے، چائے کا دور چل رہا، کوئی سگریٹ سے لطف اندوز ہورہا تھا کوئی چائے کی ہلکی ہلکی چسکی لے کر ٹی وی پرچلنے والی خبروں پر نظریں جمائے بیٹھا تھا، بیٹھک میں پن ڈراپ سائلنس تھی، صرف ٹی وی کی آواز ہی گونج رہی تھی، اچانک ہی باباجی بدبدائے، ہم سب کے کان کھڑے ہوگئے کیوں کہ باباجی جب بولتے ہیں کچھ نیا ضرور ہوتا ہے۔ باباجی نے کہا۔۔ آج میں آپ کو ایسی زبردست خوش خبری سنانے جارہا ہوں، جو پچھلے پندرہ ماہ سے پی ڈی ایم حکومت نے بھی کبھی دی ہوگی نہ اس خوش خبری کا کبھی سوچا بھی ہوگا۔ ہم سب حیران ہوئے، ایسی کون سی خوش خبری ہے جو صرف باباجی کو پتہ ہے اور حکومت بھی اس سے محروم ہے۔ ہم سب نے باباجی سے خوش خبری سے متعلق پوچھا۔۔ باباجی نے جیب سے سگریٹ کا پاکٹ نکالا، اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر فلٹر کے مخالف حصے کو زبان سے ہلکا سے گیلا گیا، سگریٹ سلگایا اور ایک لمبا کش لیا۔۔ہم سب باباجی کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے، باباجی نے اس لمبے کش کا دھواں فضا میں چھوڑا اور کہنے لگے۔۔چھ مہینے پہلے ہر پاکستانی ایک لاکھ پچیس ہزار کا مقروض تھا اب ہر پاکستانی پچانوے ہزار روپے کا مقروض ہے۔ ہم سب نے بیک وقت سوال کیا، یہ کرشمہ کیسے رونما ہوا؟؟ اسحاق ڈار نے وفاقی بجٹ پیش کیا، اس میں بھی اس کا ذکر نہیں، یہ سین کیا ہے؟باباجی کہنے لگے۔۔چھ مہینے پہلے ملک کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ تھی۔ اب مردم شماری کے بعد 24 کروڑ ہو چکی ہے۔آبادی کا بڑھنا، مطلب قرضداروں کی تعداد کا بڑھنا ہے۔ زیادہ قرضداروں پر تقسیم ہونے کے بعد قرضہ کم ہو جایا کرتا ہے۔ اگر پاکستان کی آبادی دو ارب تک پہنچ جائے تو ہر شخص پر قرضہ صرف پچاس روپے رہ جائے گا۔لہٰذا ہمت کیجیے،آبادی بڑھائیے،اپنے لیے۔۔قوم کے لیے۔۔بس یہی ایک صورت بچی ہے قرض کم کرنے کی۔ہم سب کا بے ساختہ قہقہہ نکل گیا۔ پھر باباجی اپنا ایک پھٹا پرانا قصہ سنانے لگے۔ کہنے لگے کہ۔۔ایک دوست کی زمین پر پندرہ لاکھ لون لیا۔اس میں سے 7 لاکھ کا اسے ٹریکٹر لے دیا۔۔ باقی میں نے خود رکھ لیے۔۔ پھر ایک سال بعد بنک سود دینے کے لیے اس کا گھر گروی رکھوا کر 4 لاکھ لون لیا 2 لاکھ بنک میں جمع کروائے 2 لاکھ میں نے خود رکھ لیے ۔۔پھر 1سال بعد دونوں بنکوں کا سود اتارنے کیلئے میں نے اس کا مال مویشی بیچ دیا اور باقی جائیداد گروی رکھ کر اور لون لیا ۔۔کچھ رقم سے سود کی قسطیں ادا کی کچھ رقم خود رکھ لی۔۔اب میرے پیارے دوست پر کل قرض تقریباً 30 لاکھ ہے مگر اس کا اپنا ٹریکٹر بن گیا۔۔مگر مجال اس بے شرم انسان نے کبھی دوستوں کے سامنے میری تعریف کی ہو ہمیشہ مجھے گالیاں دیتا ہے ، حالانکہ اس کو ٹریکٹر لے کر دینے کا سارا کریڈٹ مجھے جاتا ہے۔۔ہم سمجھ گئے کہ باباجی نے اس قصے کی آڑ میں حکمرانوں کو کوسا ہے۔
اب ذرا کراچی کے میئر کی بھی بات ہوجائے۔۔ایک بچہ اسکول سے گھر آیا۔ماں سے پوچھا، انیس بڑا ہوتا ہے یا بیس؟ماں نے جواب دیا، بیٹا، بیس بڑا ہوتا ہے۔۔وہ بولا، اوہ، میں نے تو اسکول میں شرط لگا لی کہ انیس بڑا ہوتا ہے بیس سے۔۔ماں بولی، بیٹا تو شرط ہار جائے گا کیوں کہ بیس بڑا ہوتا ہے۔۔بیٹا بولا، نہیں ماں، میں شرط نہیں ہاروں گا۔۔ماں نے کہا ،نہیں بیٹا تم شرط ہار جاؤ گے۔۔وہ بولا، میں مانوں گا ہی نہیں کہ بیس بڑا ہے تو ہاروں گا کیسے؟ واقعہ کی دُم:کراچی کا مینڈیٹ جماعت اسلامی کا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خود کا دوسروں سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیں، سورج ہویاچاند اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔