تحریر: بلال الرشید۔۔
انسان کو زندگی میں جو بھی چیز متاثر کرتی ہے ، اس کا تعلق عقل سے ہوتا ہے یا جذبات سے۔ ایک جذباتی نعرہ ، مثلاً ’’جاگ پنجابی جاگ ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ فوراً دماغ میں کیمیکلز خارج کرتاہے۔ پلک جھپکنے میں آدمی جذبات کا غلام ہو جاتاہے ۔ڈنڈا اٹھا کر باہر سڑک پہ نکل آتا ہے۔ میڈیا کا سارا کاروبار انہی جذبات پہ منحصر ہے۔بڑے بڑے اینکر اور صحافی جذبات فروش ہیں ۔ان میں سے اکثر جانتے بوجھتے ان باتوں کو پھیلاتے ہیں ، جو ان کے علم کے مطابق سچ نہیں ہوتیں لیکن جذبات بھڑکاسکتی ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری ، جسٹس ثاقب نثا ر اور راحیل شریف کی بشارتوںاور دعوئوں میں سے ایک فیصد بھی درست ثابت نہیں ہوئے ۔بڑے بڑے لوگ جذبات کے غلام بن جاتے ہیں۔ سرکارؐ کے ارشاد کے مطابق پہلوان کو پچھاڑ دینا آسان ہے لیکن غصے کو پچھاڑ نا مشکل۔ جذبات کو شکست دینا بہت مشکل ہے ، غصہ جن کا سرخیل ہے۔ استاد کے مطابق انسان خود کو جذبات کے حوالے کر دے تو نرم و نازک عقل ان دیو ہیکل جذبات کی موجودگی میں دبک کر بیٹھ جاتی ہے ۔
ہمارے ٹی وی چینلوں پرجوڈرامے دکھائے جار ہے ہیں۔ ساس بہو کی لڑائی اور شوہر کی دوسری شادی سمیت، وہ خواتین کے جذبات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کہانی نام کی کوئی چیز نہ ہونے کے باوجود وہ مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالتے ہیں۔ یکسانیت کے باوجود اگر بار بار وہی چیزیں دیکھی جا رہی ہیں تو وجہ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ ایک محترم خاتون کو تو یہ کہتے سنا گیا’’ میری زندگی کو سمجھنا ہے تو ’میرا سائیں‘ دیکھ لیجیے۔‘‘مارننگ شوز میں جن نکالنے والوں کو مدعو کیا جاتاہے، برقع پوش خواتین اپنے اوپر ہونے والے مظالم بیان کرتی ہیں۔اکثر و بیشتر یہ حقیقی مظلوم نہیں بلکہ اداکارائیں ہوتی ہیں ، جنہیں باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے۔اور تو اور کیمرے لگا کر میاں بیوی اور ساس بہو کے تنازعے ’’حل‘‘ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں یہ دھنداخوب چل رہا ہے۔ معاشرے پہ اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں ، یہ ان کا دردِ سر نہیں۔
ایک دفعہ ایک انگریزی سائنس فکشن فلم دیکھی تھی۔ ایک کیمیکل کے استعمال سے ہیروئن کے دماغ کے بند خانے کھلنے لگتے ہیں۔ یوں اسے اپنی پیدائش کا وقت بھی یاد ہوتاہے۔ ریڈیو اور انٹر نیٹ سمیت وہ ہر قسم کی لہروں کو پڑھ اور استعمال کر سکتی ہے۔ وہ اپنے جسم میں دوڑتے ہوئے خون اور کششِ ثقل کو محسوس کرسکتی ہے؛حتیٰ کہ زمین کی گردش بھی۔یہ کہانی انسانی عقل اور تجسس کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
بھارت میں نریندر مودی دو مرتبہ اقتدار میں آئے تو مسلم کش جذبات بیچ کر ہی۔ سیاسی لیڈروں کے پاس بھی یہی دو راستے ہوتے ہیں۔ دوسری مثال پیپلز پارٹی ہے ، جوکئی دہائیوں سے مظلومیت کا واویلا کرتی چلی آرہی ہے۔ دوسری طرف قائدِ اعظم ؒ اور ابراہم لنکن کی مثالیں ہیں۔ معاشرے کی ساخت کو انہوں نے ملحوظ رکھا لیکن ہمیشہ سوچ سمجھ کر عقل کی مدد سے ہروہ قدم اٹھایا،جوقوم کو کامیابی کی طرف لے گیا۔ کالم نگاروں اور ٹی وی میزبانوں کو بھی جذبات اور عقل میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتاہے ۔لکھنے والے مجبور ہوتے ہیں کہ بہرحال انہیں ستائش درکار ہوتی ہے۔ پھر بھی لکھنے پڑھنے والے اکثر لوگ سو چ بچار کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ٹی وی کی دنیا میں مقابلہ سخت ہے اور مقبولیت (ریٹنگ) ہر لمحہ ماپی جا رہی ہوتی ہے:چنانچہ جذباتیت کا رنگ زیادہ غالب ہے۔
سوشل میڈیا سارے کا سارا جذبات کا کھیل ہے۔ عقل غالب ہو تو یہ کاروبار بند ہو جائے۔ زیادہ لائکس پر خوشی محسوس کرنا دراصل نفس کو ملنے والی لذت ہے اور یہ جذبات پر مشتمل ہے۔ جذبات اور احساسات کی اپنی اہمیت ہے۔ ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت جذباتی ہوتی ہے، علمی نہیں۔ہر نفس میں اپنی شدید ترین محبت، خود غرضی اور جان بچانے کا خوف جذبات ہی سے تعلق رکھتاہے۔شیطان نے جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ بنی نوعِ انسان کو گمراہ کر دے گا تو خداکا جواب یہ تھا’’مگر میرے مخلص بندے‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ خدا یہ بھی فرماتاہے: ’’بے شک زمین و آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے، بیٹھے اور پہلو کے بل لیٹے ہوئے (اور یہ کہتے ہیں) اے رب تو نے یہ (سب) بے کار نہ بنایا‘‘(آلِ عمران 191)۔ بار بار خدا یہ کہتا ہے کہ زمین و آسمان میںاس کی نشانیوں پر ہم غور نہیں کرتے۔ وہ یہ فرماتا ہے کہ اگر تم غور کرتے تو میرا انکار نہ کر سکتے۔ یوں سارے کا سارا ایمان، کھربوں برس کی ہماری اگلی زندگی کلی طور پر عقل پہ منحصر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس بھی زندگی کے مسائل سے نمٹنے میں جذبات اور عقل کے دونوں راستے موجود ہیں۔آسانی عقل میں ہے، جذبات میں نہیں۔ تسکین جذبات میں ہے ، عقل میں نہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔