جائیں تو جائیں کہاں؟؟

تحریر:خرم گلزار

*عالمی وبا سے لڑنا کیا صرف عوام کا کام؟

یا سندھ حکومت بھی کچھ کرے گی۔

گزشتہ روز گیس کا بل موصول ہوا جس کیآخری تاریخ 2 اپریل ہے

اور بجلی کا بل جس کی آخری تاریخ 14 اپریل ہے پہلے کیا کم پریشانی تو لاک ڈائون کی وجہ سے جو رہی سہی کسر ان یوٹیلٹی بلز نے پوری کردی۔

ہمارے وزیر اعلی سندھ گزشتہ کئی روز سے صرف یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ لاک ڈائون کے دوران مستحقین کو راشن کس طرح پہنچایا جائے۔ لیکن حیرت ہے کہ ان کے ہمنوا ان کی یہ الجھن دور کیوں نہیں کرتے کہ جیسے اس لاک ڈائون کے دوران جس پابندی سے دو بار شہریوں کو یوٹیلٹی بلز موصول ہوئے بالکل اسی طرح راشن بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔لیکن نہیں۔

 بل تو آگئے لیکن انہیں جمع کرانے کے لئے بھی پیسوں کا ہونا ضروری ہے جو کہ عوام کے پاس نہیں۔

 البتہ جو پیسے عوام کے پاس جمع تھے وہ تو 17 مارچ سے جاری تاحال  لاک ڈائون کے دوران خرچ ہوچکے۔ اور اطلاع ہے کہ مزید دو ہفتوں کے لئے حکومت نے لاک ڈائون میں اضافہ بھی کردیا۔اب مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اب آنے والے مزید 14  کی قید بامشقت اور اس دوران ہونے والے اخراجات کا سوچا جائے یاپھر مکان کا کرایہ۔بجلی گیس کے بلز کا۔ اوپر سے اسکول والے بچوں کی فیس کا مطالبہ الگ کررہے ہیں۔

سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ انھیں یوٹیلٹی بلز میں سہولت فراہم کی جائے گی ۔ مکان مالک اور دکان مالک بھی اپنے کرائے دار کے ساتھ کوئی سہولت کا راستہ نکالیں ۔ لیکن نہ تو بجلی کے بل کا کچھ ہوا اور نہ ہی گیس کے بل میں کوئی سہولت دکھائی دی ۔ اب تو لگتا ہے کہ ان بے حس اداروں کو لیٹ فیس کے ساتھ ہی اضافی رقم ادا کرنی پڑے گی۔

مشکل کی اس گھڑی میں کرونا وائرس سے تنگ عوام کہا کھڑی ہے ۔

سندھ حکومت ہو یا وفاقی حکومت شہریوں کو اس پریشانی سے نکالنے کے لیے کون آئے گا ۔ یا پھر یہ جنگ بھی عام شہری کو خود ہی لڑنی ہڑے گی ۔ شہر میں لوگ بھوک بھوک پکار رہے ہیں ۔ کچھ ایسی این جی اوز اور فلاحی ادارے ہیں جو مستحق افراد تک راشن پہنچانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔

لیکن کیا جو کام حکومت کو کرنے چاہیے تھے انھیں کرنے کے لیے کسی کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ یا پھر گزرتے وقت کے ساتھ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا؟

سندھ حکومت کی جانب سے لاک ڈاون ۔ وقت کی ضرورت ہے ۔

دیہاڑی دار طبقہ

راشن کی تقسیم

کے الیکٹرک کے بل

سوئی گیس کے بل

دکان اور مکان کے کرائے

پھر تنخواہ دار کا گزارا

بچوں کی اسکول فیس ان مسائل کا حل کون کرے گا ۔

لاک ڈاون کے باوجود شہریوں کی سیروتفریح بھی جاری ہے ۔

کاروباری طبقہ بھی اس صورتحال میں شدید پریشانی کا شکار یے ۔ جو جمع تھا وہ خرچ ہوگیا ۔ اب کاروباری حضرات کو گھر بھی چلانا ہے اور کام کرنے والے ملازم کو تنخواہ بھی دینی ہے۔

 کیا لاک ڈاون کرکے کاروبار بند کرنا اور لوگوں گو گھروں تک محدود کرنا ہی حکومت کی ذمہ داری۔ اگر ایسا ہے تو پھر غریبوں کے مسائل کے حل کا ذمہ دار کون ہے۔؟(خرم گلزار)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں