wazir o wazarat qala bazi

جے ہو۔۔

تحریر: خرم علی عمران۔۔

یہ  عنوان وہ بھارتی فلاپ فلم کے بارے میں نہیں بلکہ ایک انتہائ اعلی سطح کے سطحی قسم کے شرکاء پر مشتمل خفیہ اجلاس کی روداد ہے ۔اس خفیہ اجلاس میں شرکت کے لئے چہرے پر ذرا بھی ہراس نہ لئے ،سکھ و شانتی کا مجسمہ اور متانت کا پیکر بنے مودی جی ہال میں داخل ہوئے تو سب کے سب احترام میں یا پھر شرما حضوری میں کھڑے ہوگئے۔ یہ بڑی قومی اہمیت کی حامل میٹنگ تھی اور یہ ایک ہمسایہ ملک کی جارحانہ در اندازی کا بھرپور جواب دینے کی حکمت عملی کے بارے میں سوچنے کے لئے منعقد کی جارہی تھی۔ ساری دنیا کا سوشل میڈیا اس میٹنگ کے بارے میں طرح طرح کی قیاس ارائیاں اور اندازے لگانے میں مصروف تھا جبکہ  عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا زیادہ اہم عالمی مسائل میں مصروف رہنے کا تاثر دیتے ہوئے اس اجلاس میں بس واجبی سی ہی دلچسپی لے رہا تھا۔ میٹنگ کے تمام شرکاء شیر گجرات مودی جی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ مودی جی کے پرسکون چہرے کے پیچھے تڑپتی بجلیاں اور طوفان جیسے پھٹ پڑنے کو بے چین تھے اور پھر اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی۔

پہلے صورتحال پر مشہور بھارتی اینکر کی جانب سے بھرپور  جذباتی بریفنگ دی گئ جس نے بتایا کہ کیسے مہان بھارتی سینا کے جوانوں نے دشمن کے ناگہانی حملے کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ناتواں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور غیرت مند مہان پرشوں کی طرح  دشمن کی قید میں جاکر چائے پینے کی بجائے بھارتی سینا کی اعلی تر فوجی روایات کا مظاہرہ کرتے ہوئے برفیلے دریا میں کود کر آتما ہتیا کرنے کو ترجیح دی ،بہادری کے اس لاجواب مظاہرے کے بیان نے حاضرین اجلاس پر سکتہ طاری کردیا اور پرائم منسٹر نے تو دو مرتبہ ٹشو پیپر سے آنکھ اور ناک میں آنے والے پانی کو جذب کیا جسے کیمرے کی انکھ نے بڑی عقیدت سے محفوظ کرلیا۔ مشہور ٹی وی اینکر حسب عادت زیادہ وقت لینے کے موڈ میں تھے اور نان اسٹاپ بولے ہی چلے جارہے تھے کہ انہیں حیلے بہانے سے چپ کرا کر میٹنگ کے دوسرے آئٹم پر توجہ دی گئی جس میں نامور آئٹم گرل نے ایک مشہور گلوکارہ کے ساتھ مل کر قومی رقص و نغمہ کا  ایسالاجواب مظاہرہ پیش کیا کہ حاضرین اش اش کر اٹھے اور کئی مقامات پر اعضاء کی شاعری کے توڑ مروڑ نے تو پردھان منتری کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور اس کے بعد خاص طور پر گلوکارہ جی نے اکیلے سولو پرفارمنس میں دلوں کو تڑپا دینے والا درد بھرا نغمہ پیش کیا جس میں قومی جذبات یوں ٹھونسے گئے تھے جیسے بھارتی سیاست میں بھاجپا کو ٹھونسا گیا ہے۔

پھر صلاح مشورہ شروع ہوا اور بھارت ماں کے مہان سپوتروں نے بدلہ لینے کی اپنی اپنی تجاویز بیان کرنا شروع کیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک دیش بھگت وہاں موجود تھا اور باتوں اور للکاروں کے ایسے ایسے طوطا مینا اڑائے گئے اور طومار باندھے گئے کہ  کئی مرتبہ تومودی جی بھی ہکا بکا نظر آئے۔ یہ دھما چوکڑی چلتی رہی اور بہت سے منصوبے زیر غور آئے ۔مودی جی یک ٹک کان لگائے سب کی سنتے رہے۔ ایک مشہور فلمی ہیروئن نے جب یہ تجویز پیش کی انکے ہالی وڈ سے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر بین الاقوامی سطح کی انگریزی فلم یا ویب سیریز بنائی جائے جس میں ہمسایہ ملک کی در اندازی کو اجاگر کیا جائے تو یہ اچھا جواب ہوگا اور بزنس بھی خوب ملے گا تو سب نے دیکھا کہ پردھان منتری کا سر بے ساختہ اثبات میں ہل گیا۔ یعنی یہ بات مودی جی کو پسند آئی اور انہوں نے اس تجویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کرنے کے لئے میٹنگ کے اختتام کے بعد مشہور فلمی ہیروئن کو رکنے کا حکم دیا جسے دیش کی اس بیٹی نے  ذرا سا لجا کرخوشی خوشی مان لیا۔

آپ سوچ رہے ہونگے کہ مجھے یہ سب اتنی تفصیل سے کیسے پتہ ہے کیونکہ یہ تو ایک خفیہ میٹنگ تھی تو جناب ہم بھی سوشل میڈیا پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ سب باتیں ٹکڑوں میں سوشل میڈیا کے بھارتی صارفین نے شئیر کی ہیں جنہیں مربوط کرکے پیش کیا جارہا ہے اور آپ  یہ توجانتے ہی ہونگے کہ فی زمانہ سوشل میڈیا سے زیادہ قابل اعتماد کوئی بھی میڈیا نہیں ہے۔

خیر آخر میں پردھان منتری اپنی جگہ سے کسمساتے ہوئے اٹھے۔سب ہمہ تن گوش ہوگئے۔ ہال میں ایک سناٹا طاری ہوگیا اور اس سناٹے میں وشال پردھان منتری کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی جو اہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی اور تقریر کے آخر تک پہنچتے پہنچتے پردھان منتری کی باچھیں چری ہوئی تھیں،منہ سے کف اڑ رہا تھا چہرہ وفور جذبات سے سیاہی مائل سرخ ہوچکا تھا اور آواز پھٹ چکی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس میں سے گالیاں نکال کر جو اہم نکات سامنے آئے وہ کچھ یوں ہیں کہ سب سے پہلے انہوں نے قوم سے کہا کہ گھبرانا نہیں ہے، ہمیں ایسی سمسیاؤں سے نپٹنے کا بڑا تجربہ ہے۔ ہم مہان بلکہ مہا مہان دھرتی ہیں۔ ہم اتنے بڑے ہیں کہ اگر دو چار سو کلومیٹر کا علاقہ کوئی لے بھی لے تو ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پردھان منتری نے گلوگیر آواز میں مشہور فلمی نغمے کا ایک مصرعہ پڑھا جس کے درد کو سب نے محسوس کیا کہ ؎ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں، کہنے لگے کہ ارے ہم تو انہیں بھائی سمجھتے تھے،میں ہر سالگرہ پر سب سے پہلے ان کے صدر کو مبارکاں کہتا تھا۔ بالی وڈ کی ہر فلم ہم وہاں  بھیجتے تھے، بھول گئے وہ ہماری محبتیں کیسے؟ ارے پیار سے مانگتے تو ہم مزید علاقہ بھی خوشی خوشی دے دیتے لیکن بدمعاشی نہیں چلے گی ہاں ہاں بد معاشی نہیں چلے گی، تمام شرکاء نے بھی ہم آواز ہوکر دہرایا نہیں چلے گی نہیں چلے گی۔ پھر مودی جی نے اپنی سہہ جہتی جوابی حکمت عملی کا اعلان کیا اور بالی وڈ کی مشہور امریکا پلٹ ہیروئن کی تجویز پر صاد کیا اور ایک ویب سیریز بنانے کی منظوری دی جس میں بالی وڈ کے تمام  مشہورجنگی ہیروز کو ولولہ انگیز فتوحات کرتے دکھایا جانا تھا۔ حکمت عملی کے دوسرے حصے کے طور پر بھارتی سینا کو ارجنٹ بنیادوں پرقدیم فن حرب بانک اور بنوٹ کے ساتھ ساتھ دیسی کشتی کی بھی تربیت دینے کا اعلان کیا گیا تا کہ دو بدو مقابلے کی صورت میں مخالفین کے مارشل آرٹ کا بھرپور جواب دیا جاسکے۔ اور حکمت عملی کا تیسرا حصہ سب کہ سب سے موثر تھا وہ یہ تھا کہ سارے ہندوستان میں چینی کھانوں خصوصا چکن کارن سوپ کے بائیکاٹ پر سختی سے عمل کیا جائے گا جس سے دشمن کی معیشت گھٹنوں پر آجائے گی اور آخر میں پردھان منتری جی نے غصے سے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اب کبھی ہمسایہ ملک کے صدر کو سالگرہ کی مبارک باد نہیں دیا کریں گے۔ یہ ساری بات سن کر شرکاء اجلاس وفور عقیدت سے بے قابو ہوگئے اور بلند آواز ہوکر  ایک ساتھ دھاڑے کہ مودی جی کی جے۔۔(خرم علی عمران)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں