جے ہند ۔۔۔یا۔۔۔’’گے ‘‘ ہند؟؟
علی عمران جونئیر
روزنامہ نئی بات، کراچی
09-Sep-2018
دوستو۔۔تازہ خبر یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2013 میں دیے گئے اپنے ہی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیتے ہوئے ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم قرار دینے والی قانونی شق 377 کو منسوخ کر دیا جس کے بعدبھارت میں اب ہم جنس پرستی جرم نہیں ہوگا۔ بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پرست برادری کو ملک کے دیگر شہریوں کی طرح آئین کے تحت برابر کا حق حاصل ہے، ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا اعلیٰ ترین انسانیت ہے۔ قانون کے مطابق بھارت میں ہم جنس پرستی کی سزا 10 سال قید تھی جسے اب ختم کردیاگیا۔۔
دوستو،آج کا موضوع کچھ کچھ ’’متنازع‘‘ ہے، لیکن حوصلہ رکھیئے،آپ کو شرمندگی کا موقع نہیں ملے گا۔۔کسی بھی بات کے دو رخ ہوتے ہیں، آپ اسے منفی لیں یا مثبت؟؟ جیسا کہ آدھے گلاس پانی کو کچھ لوگ مثبت انداز میں کہتے ہیں کہ گلاس آدھا بھراہوا ہے، منفی ذہن والے اسے بولیں گے کہ گلاس آدھا خالی ہے۔ہمارا نہیں خیال کہ اگر ہم یا کوئی بھی کالم نگار کسی موضوع پر کچھ لکھے تو عوام وہ کام کرنے پر ’’تُل‘‘ جائے، یہ معاملات ٹھیک یا غلط کی نشاندہی کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ کسی کو ترغیب دینے کے لئے۔۔آپ نے منٹو کے افسانے پڑھے ہیں۔۔ایک لیکچرار جب یونیورسٹی میں منٹو کے افسانے پر بحث کررہے تھے اور طلبہ و طالبات کو منٹو کے افسانوں سے متعلق لیکچر دیتے ہوئے کافی ’’ گہرائی‘‘ میں چلے گئے تو ایک طالبہ اپنا دوپٹہ ہاتھوں میں لئے مسلسل مسل رہی تھی، لیکچرار نے انہیں فوراََ کمرے سے باہر جانے کو کہا کہ بیٹا پہلے ذہن صاف کرکے آؤ پھر کلاس لینا۔۔۔ یعنی معاملہ آپ کے ذہن کا ہے۔۔۔ ڈاکٹرز( خواتین و حضرات )کے سامنے انسانی اجسام پڑے ہوتے ہیں تو وہاں خواتین بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی مگر انہیں صرف انسان کی بہتری کیلئے عدم ستر پوشی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔۔۔
بھارتی سپریم کورٹ نے تو ابھی ہم جنس پرستی کو قانونی قراردیا، لیکن تقسیم ہند سے قبل کے شعرا ء کو پڑھا جائے، (ہماری نصابی کتب میں پرانے شاعروں کا کلام کثرت سے شامل کیا جاتا ہے) تو احساس ہوتا ہے کہ اردو میں اس معاملہ میں میر تقی میر کا مقام بہت ’’بلند‘‘ ہے کہ ان کے ہاں ایسے کئی اشعار ملتے ہیں کہ معاملہ ’’گڑبڑ‘‘ لگتا ہے۔۔ مثلا۔۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل لے کے کیسے کیسے جھگڑے مجادلے ہیں
بد وضع یاں کے لڑکے کیا خوش معاملے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر کی عیاریاں معلوم لڑکوں کو نہیں
کرتے ہیں کیا کیا ادائیں، اس کو سادا سا سمجھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کی میر
سمندِ ناز پہ اک اور تازیانہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ بھی ملاحظہ ہو:
کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ
یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی کے دوران ایک بار ہمارے ایک دوست نے ’’میر‘‘ کی شاعری پر کچھ تحقیق کی تھی ،اسی ادھوری تحقیق کے نتیجے میں یہ اشعار اکٹھے ہوپائے،ہمارا دوست سمجھا کہ ’’میر‘‘ صاحب نے شاعری میں ہی اپنا کردار بتادیا اس لئے انہیں سوچا کہ خوامخواہ وقت کا ضیاع ہے ایسے واہیات موضوع پر سر کھپانا، پھر اس نام نہاد تحقیق کو ترک کر دیا۔۔یہی نہیں،حافظ شیرازی کا وہ مشہور زمانہ شعر’’اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما ر‘‘ بھی ذرا ترجمہ کرلیں۔۔دیگر محققین کے علاوہ مولانا حالی نے بھی ‘مقدمہ شعر و شاعری’ میں اس موضوع کو چھیڑا ہے، فارسی اور اردو شاعری میں ’’خط و سبزہ” اور محبوب کو۔۔مرد۔ یا ۔بے جنس’ قیاس کرنا تو شاید علامہ کے دور تک موجود رہا ہے اور اسکی بہت ساری وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی گنوائی جاتی ہے کہ اسکے وقت کے ،معاشرتی ادب و آداب اور سوسائٹی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شعراء برسرِ عام عورتوں کو زیرِ بحث لانا سوقیانہ اور فحش سمجھتے تھے، اسلیئے محبوب کوبے جنس یا ۔۔مرد قیاس کرتے تھے۔
شعراء بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں سو معاشرے میں موجود اچھائیاں اور برائیاں ان میں بھی پائی جاتی ہیں، فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی ’’ہم جنس پرستی‘‘۔۔ یا ۔۔’’امرد پرستی‘‘ کے مرض میں مبتلا رہے ہیں، قریب کے زمانے کی مثال مرحوم جوش ملیح آبادی ہیں، جن کے اس ’’وصف‘‘ پر روشنی مرحوم شاہد احمد دہلوی نے اپنے ایک مضمون میں ڈالی ہے جو کہ ۔۔’’نقوش‘‘ کے ادبی معرکے نمبر جلد دوم میں دیکھا جا سکتا ہے۔۔اسی مکروہ موضوع پر کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک نجی چینل نے اپنی اسکرین پر “talking Divas”. پروگرام کیاتھا جس کا موضوع تھا homosexuality تھا۔۔ وہاں بہت دھڑلے سے لڑکے اور لڑکیاں اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ وہ gay/lesbians ہیں۔ قران کی آیات کا بھی غلط حوالہ دے رہے تھے کہ وہ غلط نہیں کر رہے۔اسلام میں استغفراللہ اسکی اجازت ہے۔ اس میں امین گل جی اور اطہر، شہزاد نے کھلے عام کہا ہے کہ وہ ہیں۔ یہی نہیں ،ہم جنس پرستی پر دو مسلمان تنظیمیں بھی وجود رکھتی ہیں، ایک امریکا میں ’’الفاتحہ‘‘ کے نام سے اور دوسری برطانیہ میں ’’ایمان‘‘ کے نام سے۔۔ ان کی وڈیوز اور نیوزلیٹر انٹرنیٹ پر گھوم رہے ہیں، اور دونوں تنظیموں کے بانی’’پاکستانی ‘‘ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ہیں۔۔
بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی تو قرار دے دیا جس کے بعد اب بھارت میں مرد کسی بھی مرد اور خاتون کسی سے بھی شادی کرسکے گی۔۔ جس پر بھارتی پولیس کوئی مقدمہ بھی درج نہیں کرسکے گی۔۔کیونکہ کسی بھی قسم کا قانون اس پر لاگو نہیں ہوگا۔۔ اب بات سمجھنے کی ہے کہ شادی کے صرف ایک ظاہری مقصد کے علاوہ بہت سے مقاصد ہیں جو کہ صرف صنف مخالف سے ہی شادی کرنے پر پورے ہوتے ہیں۔۔ بلکہ ظاہری مقصد درحقیقت مقصد حقیقی حاصل کرنے کیلئے ایک ذریعہ ہے اور ایک امتحان بھی۔ اور یہ تمام حیوانوں میں مشترک ہے۔۔ اور وہ ہے نسل کی بقا۔۔ اگر دنیا میں صرف ہم جنس پرستی ہی رہ جائے تو دنیا کتنے عرصہ تک رہے گی ؟۔۔ اگر جانور بھی ہم جنس پرستی پر تل جائیں تو پھر کھا لیا ہم نے گوشت ؟ پودے بھی ہم جنس پر ستی پر تل جائیں تو پھر کھا لیا ہم نے اناج۔۔مگر اب کیا کیا جائے کہ حضرت انسان خود ہی اپنی نسل کے درپے ہو جائے۔۔لیکن جو بھی ہے اب بھارتی پولیس ہو یا فوج۔۔یہ لوگ اب جے ہند کا نعرہ لگانے کے بجائے ’’ گے ‘‘guy ہند کا نعرہ لگاسکیں گے کیونکہ خود کی سب سے اعلیٰ عدالت نے جو اس بات کی اجازت دے دی ہے۔