تحریر:سمیرقریشی
کراچی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ تو اب معمولی بات ہے لیکن بدقسمتی سےڈکیتی مزاحمت کے دوران ہونیوالی اموات ہمارےانتظامی اور پولیس سسٹم پرایک داغ ہیں۔ سال 2022 کے دو ہفتوں میں ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ سے 7 گھرانوں کے چراغ گل کر دیئے گئے جبکہ ایک خاتون سمیت30 افراد کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر زخمی کردیا گیا کروڑوں روپے کی نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء لوٹ لی گئیں۔۔شہر میں ہونیوالی متعدد وارداتوں میں مجموعی طور پر 3 کروڑ 25 لاکھ سے زائد کی رقم لوٹی جاچکی ہے۔رواں سال کے پہلے ماہ کی پہلی بڑی ڈکیتی کلفٹن میں ہوئی جس میں رقم کے ساتھ شہری کی زندگی کا چراغ بھی گل کردیا گیا ڈاکوؤں نے شہری سے 73 لاکھ روپے لوٹے اور مزاحمت پر قتل بھی کر دیا۔دوسری بڑی ڈکیتی پریڈی تھانے کی حدود میں ہوئی۔۔ 4 ڈاکو موبائل کمیونیکیشن کے دفتر سے 48 لاکھ روپے کیش اور لاکھوں روپے کے چیک لے گئے۔۔۔۔مختلف وارداتوں میں 50 تولہ سے زیادہ سونا لوٹ لیا گیا گھروں میں ڈکیتی کے دوران گیارہ قیمتی گھڑیاں اور لیپ ٹاپ لوٹےگئے، ان دوہفتوں میں شہریوں سے درجنوں موبائل فون چھین لئے گئے چند روز قبل صبح سویرے تالا توڑ گروہ دو موبائل فون شاپس سے دس لاکھ کے موبائل چوری کر کے لے گئے ۔۔۔۔بلدیہ سعیداباد میں شہری کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کیا بزرگ شہری کو موبائل فون نہ دینے پر قتل کیا گیا۔ شاہ رخ نامی نوجوان جس کی تین روز قبل ہی شادی ہوئی سے اس کی والدہ اور بہن کے سامنے چوڑیاں چھین کرڈکیتی مزاحمت پر قتل کیا گیا جبکہ احسن آباد میں نیوی کے ریٹائر افسر اشتیاق کو گھر کے قریب ڈکیتی مزاحمت پر ابدی نیند سلا دیا گیا ۔۔۔۔سپر ہائی وے پر بھی لوٹ مار میں ایک شہری جان سے گیا۔۔۔سچل کے علاقے میں تاجر امان اللہ سے رقم لوٹنے کے بعد مزاحمت پر فائرنگ کرکے اسےقتل کردیا گیا
چوری، ڈکیتی، رہزنی کے ان واقعات کے باوجود کراچی پولیس صرف نوٹس لینے اور ہدایت جاری کرنے میں مصروف رہی۔ ایک قابل غور امر یہ بھی ہے کہ شہرقائد میں موبائل فون کی چوری اور چھیننے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ جبکہ موٹرسائیکل چوری بھی عروج پرہےکسی گھر دکان، بینک یا آفس میں ڈکیتی ہو جائے یا چوری کی واردات ہو تو مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور پولیس ریکوری کے لئے حرکت میں آجاتی ہے۔ مگر آپ کی موبائل فون یا موٹر سائیکل چوری ہو یا چھینی جائے تو مجال ہے جو کسی تھانے پر پرچہ کاٹا جائے یا پولیس حرکت میں آئے ۔۔۔دوسری طرف نئے بھرتی ہونیوالے پولیس اہلکاروں کے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کی شکایات بھی عام ہیں۔ پولیس اہلکار لوگوں کے خاندانی معاملات اور جائیداد کے جھگڑوں میں زیادہ دخل دینے لگے ہیں جسکے باعث انکے اصل کام متاثر اور ساری توجہ مال بنانے کی طرف ہےپولیس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ پولیس ایک فریق سے رشوت لے کر دوسرے فریق کے خلاف جھوٹے فوجداری مقدمہ قائم کردیتی ہے تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان جائیداد کے دیوانی معاملات کو فوجداری بنا کر کمزور فریق کو دباؤ میں لایا جا سکے اور اسے کم تر شرائط پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیاجا سکے۔ پولیس سسٹم پرمہارت رکھنےوالے تجزیہ کاروں اور افسران نے مشورہ دیا ہے کہ اگر چیک اینڈ بیلنس سسٹم فوج کی طرز پر رکھا جائے تو جرائم کے واقعات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے ورنہ پھر 2020 کی بنسبت جس طرح 2021 میں جرائم کی شرح 40 فیصد زیادہ رہی اور جس طرح 2022 کاپہلا مہینہ شہریوں پر قیامت ڈھا رہا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سال شرح مزید بھی بڑھ سکتی ہے اور اس کا جوابدہ کون ہوگا؟ یا پھر سال کے آخر میں پھر اسی طرح اعداد و شمار پر پولیس نئی حکمت عملی اپنانے کے راگ الاپتی نظر آرہی ہوگی۔۔(سمیر قریشی)۔۔