تحریر: جاوید چودھری
مجھے ہر دوسرا شخص روک کر ہم خیال گروپ‘ آئی بیکس اور جاوید چوہدری فاؤنڈیشن کے بارے میں پوچھتا ہے‘ یہ پوچھ پڑتال قدرتی ہے‘ ہم لوگ ہر دو تین ماہ بعد پچاس اور سو لوگوں کے گروپ کے ساتھ مختلف ملکوں میں جا رہے ہیں‘ پاکستان میں یہ تصور نیا ہے چناں چہ لوگوں کا تجسس بجا ہے۔
یہ فاؤنڈیشن کیسے بنی‘ ہم لوگوں نے آئی بیکس کمپنی کیسے بنائی اور ہم خیال لوگ کیسے اکٹھے ہوئے؟ یہ کہانی داستان امیر حمزہ سے مختلف نہیں‘ میں اس کلب کا پہلا ممبر تھا‘میں نے یہ کلب کیوں بنایا؟اس کے پیچھے میری اور میری زندگی کی بے شمار محرومیاں تھیں‘ میری زندگی میں سیکڑوں کمیاں تھیں‘ میں اپنے خاندان کی پانچ ہزار سال کی تاریخ میں اسکول جانے والا پہلا بچہ تھا‘ میرے مرحوم والد اپنی نوعیت کے انوکھے ٹرانسفارمر تھے‘یہ عمر بھر خود کو بدلتے رہے اور میں ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا‘ میں نے اپنے ابتدائی دس برسوں میں بے شمار شفٹنگز دیکھیں‘ ہم لوگ گاؤں سے قصبے میں آ گئے‘کھیتی باڑی سے دکان دار بن گئے‘ قصبے سے شہر میں شفٹ ہو گئے اور دکان دار سے بزنس مین ہو گئے۔
یہ ترقی بظاہر اچھی تھی لیکن مجھ پر اس کا منفی اثر ہوا‘ میں بچپن ہی میں تین کلچرز میں تقسیم ہو گیا اور یہ حقیقت ہے ’’کلچرل ڈویژن‘‘ کا شکار بچہ سب سے پہلے اعتماد سے محروم ہوتا ہے‘ انسانی بچے کو اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے 14سال تک معاشرتی استحکام چاہیے ہوتا ہے‘ وہ والدین جو اپنے بچوں کے بچپن میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں ان کے بچے کنفیوز بھی ہوتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار بھی چناں چہ بچوں کی بہترین تربیت کے لیے ضروری ہے آپ انھیں14 سال تک ایک ہی جگہ او ر ایک ہی ماحول میں رکھیں‘ یہ جب پک جائیں یا ان کی شخصیت مکمل ہو جائے تو آپ پھر انھیں کسی بھی جگہ شفٹ کر دیں‘ یہ ایڈجسٹ بھی کر جائیں گے اور یہ حالات کو بھی فیس کر لیں گے۔
میرے والدین میرے بچپن میں ’’موو‘‘ کرتے رہے تھے چناں چہ میں کنفیوز بھی ہو گیا تھا اور اعتماد کی کمی کا شکار بھی ہو گیا تھا‘ میں بہرحال ان دونوں بیماریوں کے ساتھ بڑا ہو گیا‘ پروفیشنل لائف میں بھی آ گیا لیکن مجھے زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں آتا تھا‘ مجھے اپنے اوپر ’’سیلف کنٹرول‘‘ بھی نہیں تھا‘ میں تعزیت کے دوران لطیفہ سنا دیتا تھا اور لوگ جب لطیفہ سن اور سنا کر ہنستے تھے تو میں منہ بنا کر بیٹھا رہتا تھا‘ مجھے بات کرنے کی تمیز‘ کھانا کھانے کے مینرز‘ کپڑے پہننے کا سلیقہ اور محفل میں گفتگو کے آداب بھی نہیں آتے تھے‘ میں آج بھی اپنے لوگوں میں انگریزی نہیں بول سکتا لیکن اجنبی لوگوں اور اجنبی ملکوں میں پوری پوری پریذنٹیشن دے آتا ہوں۔
میں ہفتے میں تین تین دن شیو نہیں کرتا تھا‘ پوری دنیا کو ’’درویش لک‘‘ دینے کی کوشش کرتا تھا‘ مذہب کے بارے میں کم علمی کا شکار بھی تھا اور میرے اندر تعصبات کا پورا جنگل بھی اگا ہوا تھا‘ میں اوپر سے شوگر کا مریض بھی ہو گیا اور پورے خاندان کی ذمے داریاں بھی میرے سر پر آ گریں‘ میں تقریباً کریش ہو کر رہ گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے عجیب کرم فرمایا‘ اس نے میرے لیے دھند‘ تشکیک اور کنفیوژن میں راستہ بنا دیا اور یہ راستہ ایک چھوٹی سی کتاب کی ایک معمولی سی ’’کوٹیشن‘‘ سے شروع ہوا‘ میں نے 1998ء میں فٹ پاتھ بک شاپ سے چینی محاوروں کی ایک کتاب خریدی تھی‘ میں نے شام کے وقت اس کی ورق گردانی شروع کر دی۔
میری نظریں اچانک ایک کوٹیشن پر جم گئیں اور اس کوٹیشن نے میری پوری زندگی بدل دی‘ وہ فقرہ تھا ’’ٹریول از بیسٹ یونیورسٹی آف دی ورلڈ‘‘ (سفر دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے) بس یہ فقرہ پڑھنے کی دیر تھی اور مجھے اندھیرے میں روشنی کی کرن نظر آ گئی اور میں نے سفر کی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا‘ سفر کے لیے ظاہر ہے وسائل درکار ہوتے ہیں اور میرے پاس یہ تھے نہیں چناں چہ میں نے وسائل کے لیے صحافت کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا‘ میں نے چھوٹے چھوٹے کام شروع کر دیے‘ اللہ نے ہاتھ پکڑ لیا‘ رزق وسیع ہو گیا اور میں نے سفر شروع کر دیے۔
میں ایک ایک کر کے دنیا کے 82 ملک پھر گیا‘ آپ قطب شمالی سے قطب جنوبی تک جس ملک پر انگلی رکھیں گے میں وہاں جا چکا ہوں گا‘ اس کے قریب سے گزرا ہوں گا یا وہ میری وش لسٹ میں ہو گا‘ میں نے زندگی میں بے تحاشا کام کیا‘ میں آج بھی سات کام کرتا ہوں‘ اللہ نے مجھے میری ضرورت اور قابلیت سے زیادہ رزق دیا اور میں نے یہ ساری کمائی سفر‘ لرننگ‘ لائف اسٹائل اور فیملی پر خرچ کر دی‘ میرے پاس کبھی اگلے مہینے کے پیسے نہیں ہوتے‘ میں ہر ماہ کے آخر میں ہاتھ جھاڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھتا ہوں اور اللہ پچھلے مہینے سے زیادہ کرم کر دیتا ہے۔
میں نے سیاحت کے دوران کیا کیا سیکھا؟ یہ بھی ایک حیران کن داستان ہے‘ مجھے سیاحت کے دوران معلوم ہوا دنیا ہماری سرحد کے اندر نہیں ہماری سرحد سے باہر ہے‘ ہم اپنے کنوئیں کے اندھے مینڈک ہیں‘ سفر نے مجھے تاریخ سے بھی جوڑ دیا‘ جغرافیے سے بھی‘ ثقافت سے بھی‘ لائف اسٹائل سے بھی‘ کتابوں‘ میوزک اور فلموں سے بھی اور مذہب سے بھی‘ میں ماضی میں اللہ کو صرف مانتا تھا‘ سفر نے مجھے اللہ پر یقین کی نعمت سے بھی نواز دیا‘ میں وقت کی کمی کا شکار رہتا تھا لیکن مجھے سفر سے پتا چلا انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو یہ ایڈی سن کی طرح 84 سال کی زندگی میں دنیا کو 1093 ایجادات دے سکتا ہے اور ایجادات بھی ایسی جنھوں نے پوری دنیا کا کلچر بدل کر رکھ دیا۔
انسان کرنا چاہے تو یہ بل گیٹس کی طرح 45 سال کی عمر میں 130 ڈالر فی سیکنڈ کما سکتا ہے اور یہ سیم والٹن کی طرح مالز کی اتنی بڑی چین بنا سکتا ہے کہ یہ اگر اپنے ہر اسٹور کو ایک دن دے تو یہ 35 سال بعد واپس اپنے پہلے اسٹور پر آئے گا‘ مجھے معلوم ہوا ایشو وقت نہیں ایشو اس وقت کا استعمال ہے‘ ہم اگر کچھ نہیں کرنا چاہتے تو پھر سات زندگیاں بھی ناکافی ہیں اور ہم اگر کچھ کرنا چاہیں تو پھر ایک زندگی بھی اضافی ہے‘ مجھے سفر نے میل ملاپ‘ گفتگو‘ لوگوں کو سمجھنے‘ کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کی تمیز بھی سکھادی اور زندگی کے مقاصد بھی سمجھادیے۔
میری یادداشت بھی تیز ہو گئی اور میرے دل میں دوسروں کے خیالات اور عقائد کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو گیا اور مجھے یہ بھی سمجھ آ گئی میں کچھ بھی نہیں ہوں‘ سفر نے مجھے عاجزی کی عظیم دولت سے نواز دیا‘ مجھے پتا چل گیا اللہ عاجز درختوں پر زیادہ پھل لگاتا ہے‘ میں نے اس دوران ایک اور کام بھی کیا‘ میں نے مختلف ملکوں سے مختلف کورسز کرنا شروع کر دیے‘ مثلاً میں صحافی کے ساتھ ساتھ سرٹیفائیڈ ویٹر بھی ہوں‘ میں نے سرونگ کا باقاعدہ کورس کیا تھا‘ میں نے ٹیبل مینرز کا کورس بھی کیا‘ میں نے پولینڈ اور لتھونیا سے لکڑی کے گھر بنانا بھی سیکھا‘ میں کافی بنانے کا ’’ایکسپرٹ بھی ہوں‘ میں نے گھر کو کافی کا گودام بنا دیا ہے۔
میں نے دنیا کے مشہور اداروں سے سیلف ڈویلپمنٹ اور سیلف ہیلپ کے بے شمار کورسز بھی کیے اور میں چھوٹا سا آرکی ٹیکٹ بھی ہوں‘ میں نے گھر بنا بنا کر یہ فن بھی سیکھ لیا‘ میں سمجھتا ہوں دنیا میں کام کرنے کے دو طریقے ہیں‘ آپ سیکھ کر کام کریں یا پھر کام کر کے سیکھیں‘ میں دوسری ٹائپ کا انسان ہوں‘ میں کر‘کر‘کر اور کر کے سیکھتا ہوں‘ گرتا ہوں‘ اٹھتا ہوں‘ پھر گرتا ہوں مگر ’’گیو اپ‘‘ نہیں کرتا‘ آگے بڑھنے کے لیے مجھے کرالنگ بھی کرنا پڑے تومیں کرتا رہتا ہوں لیکن رکتا نہیں ہوں اور یہ اللہ کے کرم کے بعد سفر کی مہربانی ہے۔
میں سفر کرتا تھا تو مختلف احباب میرے ساتھ سفر کرنا چاہتے تھے‘ یہ لوگ خوش حال ہوتے تھے اور میرے اخراجات تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے‘میں یوں پانچ پانچ چھ چھ لوگوں کے گروپ میں شامل ہو جاتا تھا‘ یہ دوسرے ملکوں سے منزل مقصود تک پہنچ جاتے تھے اور میں یہاں سے وہاں چلا جاتا تھا‘ ہمارے ان سفروں کے دوران احباب نے سوچا ہم جاوید چوہدری فاؤنڈیشن بناتے ہیں۔
اپنے گروپوں کو وسیع کرتے ہیں‘ تمام شعبوں کے لوگوں کو ان میں شامل کرتے ہیں‘ باہر جاتے ہیں اور اس ملک اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں‘یہ آئیڈیا اچھا تھا چناں چہ ہم نے 2018ء میں پہلا ٹور اناؤنس کر دیا‘ چار ہزار لوگوں نے اپلائی کر دیا‘ یہ تمام پڑھے لکھے‘ کام یاب اور خوش حال لوگ تھے‘ ہم نے بسم اللہ کی اور پھر چل سو چل‘ ہم اب تک چھ بڑے اور درجن سے زائد چھوٹے ٹورز کر چکے ہیں‘ یہ ٹورز ’’سیلف فنانس بیس‘‘ پر ہوتے ہیں‘ ہم ایئر لائینز‘ ہوٹلز‘ ریستورانوں اور ٹور آپریٹرز سے مناسب ریٹس پر سہولتیں لے لیتے ہیں‘ ایمبیسیاں ہمیں ویزے دے دیتی ہیں اورمیزبان ملک ہمیں مناسب سہولتیں فراہم کر دیتے ہیں یوں لرننگ کا وہ سلسلہ جو صرف مجھ تک محدود تھا وہ اب سیکڑوں لوگوں تک پھیل چکا ہے۔
ہمارے گروپوں میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں اور بچے بھی‘ ہم سفر کے دوران ایک دوسرے سے بھی سیکھتے ہیں اور مختلف معاشروں‘ مذاہب اور لوگوں سے بھی‘ ہم نے اس دوران آئی بیکس کے نام سے کمپنی بھی رجسٹرڈ کرا لی‘ آئی بیکس کو اردو میں مارخور کہتے ہیں اور یہ ہمارا قومی جانور ہے‘ یہ کمپنی گراؤنڈ سروسز کے لیے ضروری تھی‘ یہ ہمارے سفر کے انتظامات دیکھتی ہے‘ ہم مستقبل میں پاکستان میں ٹورازم کے انسٹی ٹیوٹ اور مینرز یونیورسٹی بھی بنانا چاہتے ہیں۔
یہ یونیورسٹی لوگوں کو مینرز بھی سکھائے گی اور سیاحت کی ٹریننگ بھی دے گی اور ہم پاکستان سے ناراض گوروں کو بھی پاکستان لانا چاہتے ہیں لیکن یہ دور کے منصوبے ہیں‘ ہم لوگ اگر موجودہ بحرانوں سے بچ گئے تو آگے کا سوچ پائیں گے‘ سردست نیا پاکستان ہے اور ہم ہیں دوستو! اور اس نئے پاکستان میں چند ہم خیال لوگ اپنے آپ اور اپنی توانائی کو بچانے کی سعی کر رہے ہیں‘ یہ ٹمٹماتے چراغوں کی طرح صبح تک اندھیرے سے لڑنا چاہتے ہیں‘ اللہ یقینا کرم کرے گا‘ میرا ایمان ہے اللہ کی مدد بہت جلد آئے گی اور پوری دنیا کو حیران کر دے گی‘ یہ ملک ان شاء اللہ دو تین ماہ میں اپنے عروج کی طرف واپس جائے گا۔(بشکریہ ایکسپریس)