crime free city 2

جاوید چوہدری۔ میں شرمندہ ہوں

تحریر: راجہ لیاقت۔۔

تھانہ شالیمار میں چار لڑکوں کے خلاف کالج میں زبردستی گھسنے، خواتین کو ہراساں کرنے سمیت متعدد الزامات کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ چاروں نوجوان گرفتار ہوگئے۔ انہیں جیل بھی بھیج دیا گیا۔ ایف آئی آر اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج کے پرنسپل کی جانب سے کٹوائی گئی۔ فیضان مرزا، فضل جان، حارث اور محمد فائز جاوید گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔ اس طرح کے واقعات روزمرہ کا معمول ہے۔ قتل، ڈکیتی، اغوا، قبضہ، منشیات فروشی، جسم فروشی سمیت اسلام آباد میں ہر وہ جرم ہوتا ہے جسے قانون کی نظر میں ”قابل دست اندازی پولیس“ کہا جاتا ہے لیکن ”بریکنگ نیوز“ کےلئے ان واقعات کے اندر سے ”کچھ خاص“ نکالنا مقصود ہوتا ہے۔ بعض اوقات پولیس افسران خود بھی بتاتے ہیں کہ کس جرم میں کون ملوث ہے اور بعض اوقات ”انوسٹی گیٹو“ رپورٹر دور کی کوڑی لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔12نومبر کو تھانہ شالیمار میں درج ایف آئی آر میں سے بھی ایک بریکنگ نیوز نکالی گئی۔ چار میں سے ایک نوجوان محمد فائز جاوید ”بریکنگ نیوز“ بن کر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ اس وقت تک لاکھوں کروڑوں لوگ اس ”دھماکہ خیز“ خبر کو آگے سے آگے پھیلا کر چسکے لے رہے ہیں۔ فائز جاوید نہ تو شاہد آفریدی جیسا سٹار ہے، نہ مائرہ خان کی طرح صدارتی ایوارڈ یافتہ کوئی ”فنکار“ وہ وسیم اکرم، کوہلی یا ٹام کروز بھی نہیں ہے کہ میڈیا اسے اتنی اہمیت دیتا، وہ اٹھائیس سال کا ایک جوان بالغ شخص ہے، اپنا کاروبار کرتا ہے اور اس ملک کے لاکھوں لوگوں کی طرح ایک عام آدمی ہے۔ اس کے باوجود وہ گزشتہ چار روز سے میڈیا میں ”اِن“ ہے۔ اس کی وجہ وہ خود نہیں بلکہ میرے ملک کے مشہور کالم نگار، اینکر اور صحافی جاوید چوہدری ہیں۔ فائز جاوید ، جاوید چوہدری صاحب کا بیٹا ہے، بیٹے کی اس حرکت یا مبینہ ”جرم“ کو باپ کے ساتھ جوڑ کر ہم اپنی ذہنی بیماری کو تسلی دینے میں کوئی بھی کسر چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہم نے اس جرم کو ”ناقابل معافی وتلافی گناہ“ کے طور پر لے لیا ہے۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ جاوید چوہدری اپنے کالموں، پروگرامز، لیکچرز کے ذریعے شہر، صوبے، ملک بلکہ دنیا کو بدلنے کے نت نئے منصوبے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ جاوید چوہدری کا پروگرام اخلاقیات سے شروع ہوتا ہے اور ایک ”سبق“ کے طور پر ختم ہوتا ہے۔ وہ ملک کے ساتھ پوری قوم کو اپنے طور اطوار بدلنے، اپنی عادات بدلنے، اپنے اخلاقیات کو سدھارنے پر بغیر رُکے بولتے ہیں، بغیر تھکے لکھتے ہیں لیکن وہ اپنے گھر میں ایک بیٹے کو اخلاقیات نہیں سکھا سکے۔ وہ ”اربوں روپے“ کما گئے اور پتا نہیں کیا کیا کرگئے اور تو اور خود جاوید چوہدری کی ”کمیونٹی“ کے لوگ چھرے اور ہتھوڑے لیکر ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ طرح طرح کے الزامات، عدالت میں پیشی کے دوران ان کے ”مجرم“ بیٹے کی فوٹیج بنانے کےلئے خصوصی طور پر کیمرہ مینوں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔

جاوید چوہدری کو ”ننگا“ کرنے کےلئے بہت سارے لوگ خود کپڑوں سے باہر ہوگئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ بحیثیت کرائم رپورٹر جو معلومات میں نے لی ہیں، اس کے مطابق تو جاوید چوہدری نے اپنے بیٹے کے لئے کسی پولیس آفیسر، سیاستدان یہاں تک کہ کسی صحافی کو بھی فون نہیں کیا کہ اس موقع پر ان کی کسی طرح مدد کی جائے بلکہ انہوں نے تو صاف کہہ دیا کہ پولیس اور عدالت قانون کے مطابق جو کارروائی بنتی ہے کرے؟میرے سمیت کون سا ایسا باپ ہے جو ایسی جرات اور ہمت کرسکتا ہے؟ قتل اور ریپ کرنے والے مجرموں کے بھی ماں باپ انہیں اکیلا نہیں چھوڑتے، وہ تفتیشی آفیسر کو مال پانی لگانے سے لیکر اپنا ہر تعلق استعمال کرتے ہیں۔ ہم ذہنی طو ر پر مکمل بیمار ہیں ہم سے کسی کی کامیابی، خواہ اس نے کتنی ہی مشقت سے کیوں حاصل نہ کی ہو۔ ہضم نہیں ہوئی۔ ہڈی بن کر گلے میں اٹک جاتی ہے جب بھی موقع ملتا ہے ایسے شخص کی ماں بہن ایک کرنے میں ہم اپنی ماﺅں بہنوں کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ جاوید چوہدری اگر چاہتے تو وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرسکتے تھے۔ مقدمہ درج ہوتا، نہ ان کا بیٹا گرفتار ہوتا۔ یہ ہمارے معاشرے کا ”اوپن سیکرٹ“ ہے ۔ صحافت میں ان کا قد کاٹھ اتنا ضرور ہے کہ ملک کا وزیراعظم بھی ان کی مدد کےلئے موجود ہوتا۔ذرا سوچیں۔ وہ اپنے گھر میں اپنی بیگم ”مجرم فائز جاوید“ کی ماں سامنے کیسا محسوس کر رہے ہوں گے۔ بجائے اس کے کہ ایسے رول ماڈل کی قدر کی جائے۔ ہمارے لوگ سوٹے، کلہاڑے لیکر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر کبھی بھی صحافت کو ”عبادت“ نہیں سمجھا۔ بس ایک ”نوکری“ ہے، ہر اس نوکری کی طرح جو کرنے سے آپ کو پیسے ملتے ہیں لیکن جاوید چوہدری کے کالم، تجزئیے، پروگرامز، سفرنامے ثابت کرتے ہیں کہ وہ واقعی اپنے پروفیشن کے عاشق ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ بندہ اگر قابل ہو تو ایک معمولی اخبار سے، ڈیسک سے، بین الاقوامی شہرت اور نیک نامی کما سکتا ہے ۔ جاوید چوہدری اس ”سچ“ کی زندہ مثال ہیں۔

میں ذاتی طور پر جاوید چوہدری سے شرمندہ ہوں اور آج اپنے صحافی ہونے پر بھی شرمندگی محسوس کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے سمیت ہم سب کو اپنے چاک گریبانوں میں جھانکنے کی ہمت دے۔(راجہ لیاقت)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں