تحریر: ناصر جمال۔۔
سیاسی حمام‘‘ میں، سب کے سب، ننگے ہوچکے ہیں۔ ان سب کا ’’ننگ ‘‘پوری دنیا اور اہل نظر کو نظر آرہا ہے۔ اگر نہیں آرہا تو ان کے ’’بدمست‘‘ حواریوں کو نظر نہیں آرہا۔ جبکہ واقعان حال کا کہنا ہے، اپنا برھنہ پن، ’’رھبران قوم‘‘ کو بھی پتا ہے۔ مگر جب یہاں پوری قوم تقسیم ہوکر، یہ برھنہ پن، نظر انداز کررہی ہے تو انھیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ یہ ایسے ’’ اذیت پسندوں‘‘ کے لئے، اخلاقیات کے بھاری پتھر اٹھائیں۔ اس قوم کے لئے لندن کے فلیٹوں، فارن کرنسی اکائونٹس ، سرے محل، کچھ بھی نہیں ہیں تو فارن فنڈنگ کو کس نے، کب تک یاد رکھنا ہے۔ اسی لئے، عمران خان بھی اپنے پیش روں کے راستے پر ہے۔
قارئین!!!آپ یقین کریں۔ فالٹ (نقص) لیڈر شپ میں نہیں ہے۔ تمام نقائٗص ہم لوگوں میں ہی ہیں۔ واقعی رب تعالیٰ نے ٹھیک کہا ہے کہ ’’جیسی قوم ہوتی ہے۔ میں ویسے ہی حکمران مسلط کر دیتا ہوں۔
آج پنڈی بوائز سے لیکر ایف۔ آئی۔ اے۔۔۔۔۔،پی۔ ایس۔ پی۔۔۔۔۔ پی۔اے۔ ایس، اور ہمارے تمام سیاسی بوائز کو پتا ہے کہ ڈالرز، پونڈز، یورو کے انبار، گودام، بوریاں ، کس، کس، گھر، فارم ہائوسز، سیف ہائوسز، پراپرٹی ٹائیکونز اور کن سیٹھوں کے خفیہ خانوں میں ہیں۔ مگر یہ کسی کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ ڈالر کے درجات ایسے ہی بلند ہوتے رہیں گے۔ جب انکا خریداری سے دل بھر جائے گا۔تو ڈالر کی واپسی بھی ہو جائے گی۔ملک، ریاست، عوام بھاڑ میں جائیں۔ سیاسی آگ بجھانے کے لئے، سب سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔ سب سیاستدان، حکومت کا حصہ ہی تو ہیں۔ کوئی مرکز تو کوئی صوبے میں، کوئی کشمیر تو کوئی گلگت بلتستان میں، جو یہاں ایڈجسٹ نہیں ہوسکے۔ انھیں بیورو کریسی میں ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔ وگرنہ بلدیاتی نظام تو ہے ہی، فکرکاہے کی ہے۔
معاشرہ برباد ہوا چاہتا ہے۔ اخلاقی پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں کی جانب گامزن ہے۔ یہ روٹی کھائو، مٹی پائو، کے نعرہ مستانہ بلند کررہے ہیں۔ ویسے دُبئی میں ہو کیا رہا ہے۔ اگر کسی کو کچھ پتہ ہے تو رہنمائی کرے ۔عمران خان کو فنڈنگ یو۔ اے۔ ای کے حکمران خاندان سے بھی ہوئی۔ ہمارے وزیر داخلہ کا ان کا نام لیتے ہوئے، گلا خشک ہوتا ہے۔
کیا وقت آگیا ہے۔ سعودی اور خلیجی حکمران، جو کبھی یہاں امداد لینے کے لئے ایک دو سال نہیں، صدیوں آتے رہے ہیں۔ جو آج بھی نواب آف بہاولپور اور حیدر آباد کے نوابوں کے سامنے سر نہیں اٹھاتے، ہمارے، لائق، محب الوطن، رہنمائوں اور عساکر نے ہمیں، اُن کے سامنے بطور قوم، ’’چوھڑے‘‘ سے بھی بدتر بنا دیا ہے۔ ایک زرعی ملک، جو قدرستی وسائل اور بہترین انسانی وسائل سے مالا مال ہے۔ اُس کے ہاتھ میں سے خود انحصاری، غیرت، خوداری اور خوشحالی چھین کر اسے، کشکول کی بجائے، کشکال تھما دیا ہے۔ پچاس کی دہائی میں ہم جرمنی کو قرض دے رہے تھے۔ ستر کی دہائی میں چین کو بنکنگ ریفارمز کے لئے قرض دے رہے تھے۔ اور آج دنیا بھر میں بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ کمال ہی ہوگیا۔ کوئی ہمارے سی۔ پیک کو برباد کر دیتا ہے۔ کوئی فرقہ واریت کے بیج یہاں بُو دیتا ہے۔ ہم سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود منہ پر قفل لئے گھومتے ہیں۔ مودی کشمیر پر قبضہ کر لیتا ہے۔ میرا وزیراعظم کہتا ہے کہ اب میں بھارت پر حملہ کردوں کیا۔ اس کے بعد بھی وہ آج عظیم انقلابی لیڈر بنا ہوا ہے۔
قارئین۔۔باقی باتیں تو چھوڑیں، ہم نے تو لگتا ہے اپنی روحیں اور ایمان تک گروی رکھ دیئے ہیں۔ اور شاید، اسی لئے، اس ملک پر اللہ کا عذاب آیا ہوا ہے۔ملک کے باسیوں پر ٹیکس دوہرے نہیں بلکہ چار گنا ہیں۔اگر 37ہزار کے بجلی کے بل پر ٹیکسز 22ہزار ہوں تو، آگے آپ خود اندازہ کر لیں۔ یہاں ناروے، سویڈن، کینیڈا سے بھی زیادہ ٹیکسز کی شرح ہے۔ سہولیات’’روانڈا‘‘ سے بھی گئی گزری ہیں۔ ملک تباہ ہو نہیں رہا۔ ہوچکا ہے۔ آپ دنیا کا کوئی پیمانہ، سیاسی، سماجی معاشی، مذہبی، تعلیمی، انسانی حوالے سے ناپ لیں۔ آپ کو کوئی مثبت اعشاریہ نہیں ملے گا۔ اب، آپ، چاہے، کچھ بھی کہتے رہیں۔ اس ریاست، ملک اور عوام سے، اس ملک کی اشرافیہ کی کمٹمنٹ ختم ہوچکی ہے۔ اسی طرح سے عوام بھی ریاست اور ملک سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ معاشرے میں 95 فیصد نفسا نفسی کا عالم ہے۔ پانچ فیصد بھی آخر ختم ہو ہی جائیں گے۔ 95فیصد، آج انھیں بے وقوف اور آئیڈئلسٹ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں۔
حکمران اور ادارے۔۔۔ ریاست، ملک، عوام کے لئے، ”ڈریکولا اور گوڈزیلا“ بن چکے ہیں۔
جولائی میں بجلی کے بلوں میں، جو، بجلی کی بنیادی ٹیرف، فنانشل کاسٹ سرچارج ، ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، باسکٹ پرائس، جی۔ ایس۔ ٹی، ڈبل انکم ٹکیس پر جو کھلواڑ ہوا ہے۔ وہ تباہ کن اور غیر انسانی ہے۔ اگر تمام ٹیکس، آپ نے بجلی، پیٹرول، گیس، اشیائے ضروریہ سے ہی اکھٹے کرنے ہیں تو ایف۔ بی۔ آر کو آپ بند کیوں نہیں کردیتے۔ اب تو چھوٹا گھر، خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنےوالا افراد بھی ٹیکس سے محفوظ نہیں تو، پیچھے کیا بچتا ہے۔ کسٹم ڈیوٹی اور بڑے سیٹھوں پر ویسے ہی فکس ٹیکس و ڈیوٹی لگا دیں۔ اتنا بڑا ٹیکس ادارہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور وزارت خزانہ کے بابو، ریونیو کے ”دیو “رکھنے کا کیا جواز ہے۔ بل، موبائل پر بھیجیں۔ اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ سالانہ پچاس کروڑ کے قریب بل پرنٹ ہوتے ہیں۔ ماہانہ اوسط بل بھیجیں۔ جون میں جمع تفریق کرکے فائنل بل بھجوا دیں۔ بلکہ ایڈوانس بل لیں۔ ہمارے اوپر سے اضافی اداروں کا بوجھ ختم کریں۔ کمیونٹی کو ذاتی گارڈز رکھنے دیں۔ پولیس کا شعبہ تفتیش رہنے دیں۔ پنجائیت سسٹم لے آئیں۔ کائونٹی کورٹ بنائیں۔ جو دیوانی مقدمات سنے۔ فوجداری عدالتوں کا نیا نظام لائیں۔ حکمران، آئینی جھگڑوں کے لئے، الگ عدالت بنالیں۔
بہت ہوچکا، لوگوں کو کام پر لگائیں۔ یہ سی۔ ڈی۔ اے ، ایل۔ ڈی۔ اے۔ کے۔ ڈی۔ اے جیسے سفید ہاتھی ختم کریں۔ ہمیں بلدیاتی اداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ صفائی، مینٹیننس کا کام پرائیویٹ کمپنیوں کو دیں۔ نقشے سرٹیفائیڈ ہوں۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ ہو۔ اس قوم کی، میزائل، ایٹمی، میزائل، اینٹی، ایٹمی میزائل جیسے مسائل سے جان چھڑوائیں۔ پارلیمنٹ کا کام صرف قانون سازی اور پالیسی میکنگ ہو۔ پرائیویٹ شعبے کو آگے آنے دیں۔ یہ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں، ڈی۔ ایچ۔ اے، اے۔ ڈبلیو۔ ٹی، ختم کریں۔ جن کا کام ہے۔۔ انھیں کرنے دیں۔ وائٹ کالر کرائم ایجنسی، الگ سے بنائیں۔ جو اس کے ماہر ہوں۔ ہمیں نیب کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی ایس۔ ایچ۔ او کی۔ اگر زیادہ ہی کرنا ہے تو واچ اینڈ وارڈ انوسٹی گیشن کا الگ ، الگ سسٹم بنائیں۔ یہ تھانہ ہمیں نہیں چاہیئے۔
یہ دودھ کی پتلی لسی کی طرز پر بنے ہمیں ادارے نہیں چاہئیں۔ آج بھارت میں زرعی پیداوار(گندم) اسی من ہماری اٹھائیس سے تیس من ہے۔ پھر ہم نے یہ زرعی تحقیقاتی ادارے کیوں بنائے ہوئے ہیں۔ سکرنڈ سیڈ انسٹیٹیوٹ اور ٹنڈو جام زرعی یونیورسٹی کی حالت دیکھ لیں۔ حتیٰ کہ قائد اعظم یونیورسٹی چلے جائیں۔ اور شرم سے ڈوب مریں۔ آخر لمز اور نسٹ کا میعار ہر جگہ پر کیوں قائم نہیں ہوسکتا۔ پھر تعلیم کے نظام پر اتنا پیسہ کیوں برباد کیا جارہا ہے۔ نیا نظام تشکیل دیں۔ ہیلتھ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہر جگہ مافیا بیٹھا ہے۔
پھر آپ کہتے ہیں کہ بوٹا۔۔۔ کڈا، اے۔
ہمیں یا تو ’’بندے کا پتر‘‘ بن جانا چاہئے۔ یا پھر ہمیں یہاں سے کم از کم ’’زندہ‘‘ بھاگ جانے دیں۔ زندہ سے مراد محض زندگی نہیں ہے۔(ناصر جمال)