charsio ka sheher

جڑانوالہ میں کیا ہوا تھا؟

تحریر: جاوید چودھری۔۔

یہ 16 اگست 2023کی صبح تھی‘ ساڑھے چھ بجے جڑانوالہ شہر کے دو مکانوں کے سامنے سے قرآن مجید کے شہید اوراق اور ایک سفید چارٹ پیپر ملا‘ چارٹ پیپر پر سرخ مارکر سے توہین آمیز فقرے لکھے تھے اور ان کے نیچے دو عیسائی بھائیوں عمر مسیح عرف راکی اور عمیر مسیح عرف راجہ کی تصویر‘ شناختی کارڈ نمبر اور ایڈریس تھا۔

ان کے ساتھ ایک تصویر بھی ملی جس میں عمیر مسیح اپنے والد کے ساتھ کھڑا تھا‘ یہ دونوں گھر کٹڑ مذہبی لوگوں کے تھے‘ پہلے گھر میں امام مسجد رہتا تھا جب کہ دوسرا ایک مذہبی سیاسی جماعت کے امیر کا گھر تھا‘ توہین آمیز کاغذات ابتدائی طور پر خواتین کو ملے اور انھوں نے محلے والوں کو بتانا شروع کر دیا‘ لوگ آہستہ آہستہ جمع ہونے لگے‘ عمر مسیح اور عمیر مسیح دونوں فیصل آباد میں جرابیں بنانے والی فیکٹری انٹرلوپ میں ملازمت کرتے ہیں۔

عمر مسیح عرف راکی ڈیوٹی کے لیے نکلا‘ اس کی بس مس ہو گئی‘ وہ گلیوں سے گزر کر مین روڈ کی طرف جا رہا تھا‘ اس نے راستے میں لوگوں کو دیکھا تو وہ ہجوم میں گھس گیا‘ اس نے دیکھا لوگوں نے ہاتھوں میں چند اوراق اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ غصے سے اس کا نام لے رہے ہیں‘ اس نے آگے بڑھ کر کاغذات دیکھے تو ان پر اس کا نام بھی تھا اور تصویر بھی‘ اس نے لوگوں سے کاغذات چھینے اور اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔

ہجوم اس کے پیچھے بھاگا لیکن لوگ زیادہ دور تک نہ جا سکے‘ دوسرے مکان کے سامنے سے جن خواتین کو کاغذات ملے ان میں سے ایک خاتون ایک ٹیلی ویژن چینل کے رپورٹر کی بہن تھی‘ اس نے اپنے بھائی کو بتادیا‘ یہ خبر نکلی تو گلی میں موجود شاہد اقبال کے پاس پہنچ گئی‘ یہ گول گپوں کی ریڑھی لگاتا ہے‘ اس نے فوراً پولیس کو اطلاع دے دی‘ سب انسپکٹر وہاں پہنچ گیا‘ کاغذات کا معائنہ کیا اور اس نے لوگوں کو تسلی دی‘ ہم ایف آئی آر بھی درج کرتے ہیں اور ملزم کو بھی گرفتار کرتے ہیں۔

اس دوران مذہبی تنظیم کے لوگ میئر یونس رضوی کے پاس پہنچ گئے‘ وہ بھی معاملے کو سلجھانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں لیکن پھر اچانک صبح ساڑھے آٹھ بجے مساجد میں اعلان ہونے لگے اور لوگ اکٹھے ہوتے چلے گئے‘ اس دوران ایس پی بلال سلہری‘ شہر کے علماء کرام اور پادری اکٹھے بیٹھے اور گفت وشنید شروع کر دی‘ پادری نے توہین کی مذمت کی اور ملزموں کی گرفتاری کا یقین دلایا جس کے بعد فریقین میں معاہدہ ہوگیا پولیس باقاعدہ ایف آئی آر درج کرے گی اور ملزموں کو بھی گرفتار کرے گی تاہم پولیس نے عیسائی آبادی کو مشورہ دیا آپ لوگ احتیاطاً اپنے گھر خالی کر دیں۔

پادری نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور عیسائی کمیونٹی کو گھروں سے نکلنے کی ہدایت کر دی جس کے بعد یہ لوگ اپنے گھر خالی کر دیتے ہیں‘ صبح ساڑھے آٹھ بجے اچانک اطلاع آتی ہے فیصل آباد اور جڑانوالہ کے مضافات سے بھی لوگ آ رہے ہیں اور ہجوم بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ پولیس مزید نفری کے لیے ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرتی ہے مگر نفری سے پہلے سینما چوک اور چمڑہ منڈی میں کیتھولک چرچ کے سامنے چار پانچ ہزار لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔

یہ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور بپھرے ہوئے محسوس ہوتے ہیں‘ عیسائی گلی کے شروع میں مسلمانوں کے گھر ہیں جب کہ گلی کے درمیان سے عیسائیوں کے مکان شروع ہو جاتے ہیں‘ پولیس وہاں پہنچتی ہے تو اسے پتا چلتا ہے گلی کے اندر عیسائیوں کے مکان جلائے جا رہے ہیں‘ پولیس ہجوم کو روکنے کی کوشش کرتی ہے‘ یہ لاٹھی چارج بھی کرتی ہے اور آنسو گیس بھی چلاتی ہے مگر ہجوم زیادہ اور پولیس کم ہوتی ہے۔

آخر میں گولی چلانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا مگر پولیس کی لوکل انتظامیہ فیصلہ کرتی ہے حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں یہاں گولی نہیں چلے گی لہٰذا یہ حالات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر لوگ کنٹرول نہیں ہوتے‘ لوگ ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر آتے ہیں اور عیسائی آبادی کے گھر اور چرچ جلاتے چلے جاتے ہیں تاہم پولیس عیسائی لوگوں کو بچانے میں کام یاب ہو جاتی ہے۔

اس سانحے میں ایک بھی شخص زخمی یا ہلاک نہیں ہوتا اور یہ پولیس کی واقعی بہت بڑی کام یابی تھی‘ ہجوم ساڑھے تین گھنٹے مکانوں اور چرچز کو آگ لگاتا رہتا ہے اور جڑانوالہ پولیس جیسے تیسے ان کا مقابلہ کرتی رہتی ہے‘ ساڑھے بارہ بجے ریزرو نفری بھی پہنچ جاتی ہے جس کے بعد پولیس ایکشن شروع ہوتا ہے مگر اس وقت تک نوے فیصد نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔

ہجوم 85 مکان اور 23 چرچ جلا چکا ہوتا ہے جب کہ رینجرز رات ساڑھے نو بجے پہنچتی ہے مگر اس وقت تک پورا باغ اجڑ چکا ہوتا ہے‘ اس ہنگامہ آرائی کے دوران 120 لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں‘ رینجرز کی آمد کے بعد پولیس عیسائی آبادی کو دانش اسکول میں جمع کر دیتی ہے اور ان کی سیکیورٹی اور راشن کا بندوبست شروع ہو جاتا ہے۔

اس دوران این جی اوز بھی آ گئیں اور انھوں نے کرسچین کمیونٹی کو اشتعال دلانا شروع کر دیا‘ بھارت اور یورپ کے میڈیا نے بھی اس واقعے کو اٹھا لیا اور پاکستان پر ہرطرف سے یلغار ہونے لگتی ہے۔

پولیس نے دوسرے دن تفتیش شروع کر دی‘تفتیش کا آغاز عمر مسیح اور عمیر مسیح سے ہوا‘ ان کا موقف تھا اگر ہم نے توہین کی ہوتی تو ہم کاغذ پر اپنا نام‘ ایڈریس اور تصویر کیوں لگاتے‘ یہ ہمارے خلاف سازش ہے‘ ان کی دلیل میں وزن تھا‘ پولیس نے اس کے بعد توہین اور ان دونوں بھائیوں کے خلاف سازش کرنے والے کی تلاش شروع کر دی‘ پولیس کے سامنے دوسرا سوال مسلمانوں کی طرف سے ’’ری ایکشن‘‘ تھا‘ عیسائی بستی پر حملہ کرنے والے مسلمان مختلف علاقوں اور محلوں سے آئے تھے لیکن ان کا ردعمل یکساں تھا۔

یہ پٹرول ساتھ لاتے تھے اور سیدھا چرچ اور گھروں کو جلانا شروع کر دیتے تھے‘ یہ پیٹرن بتاتا تھا توہین بھی پلاننگ کے ساتھ کی گئی تھی اور ردعمل بھی باقاعدہ سوچا سمجھا اور ’’ویل پلینڈ‘‘ تھا چناں چہ پولیس نے دوسرے زاویے سے بھی تحقیقات شروع کر دیں‘ پولیس نے تحقیقات کے لیے مسیحی خواتین کے انٹرویوز کیے تو ایک خاتون نے بتایا ’’میرے خاوند کے پاس ایک تھیلا ہوتا تھا‘ میں نے ایک دن اس تھیلے کی تلاشی لی تو کپڑے میں قرآن لپٹا ہوا ملا‘ میں اس پر پریشان ہو گئی‘‘ اس کے خاوند کو بلایا گیا تو اس کی گفتگو میں ربط نہیں تھا‘ اس کی باڈی لینگوئج بھی مشکوک تھی۔

اس کے اکاؤنٹس اور موبائل فون چیک کیا گیا تو پتا چلا اسے فرانس سے کوئی شخص مسلسل پیسے بھجواتا تھا‘ یہ شخص جرمنی‘ اٹلی‘ اردن اور اسرائیل کے دورے بھی کر چکا ہے ‘یہ منشیات کا کام کرتا ہے اور اس جرم میں تین بار جیل جا چکا ہے‘ عمیر مسیح عرف راجہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے انکشاف کیا ’’میرے اس کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں‘‘ خاتون کو بلا کر پوچھا تو اس نے بھی اعتراف کر لیا‘ پولیس نے مزید تفتیش کی تو پتا چلا عمیر مسیح عرف راجہ پلے بوائے ہے اور اس کے کئی خواتین کے ساتھ تعلقات ہیں۔

تحقیقات مزید آگے بڑھیں تو معلوم ہوا مرکزی ملزم (پ) جب منشیات کے الزام میں جیل میں تھا تو اس نے جیل میں کرائے کا قتل ہائر کر لیا لیکن قاتل اس کی رقم لے کر بھاگ گیا اور اس نے راجہ پر حملہ نہیں کیا‘ پ جیل کاٹ کر باہر آیا تو اس نے راجہ کو خود مروانے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لیے سب سے آسان طریقہ توہین قرآن کا الزام تھا۔

اس سے راجہ بھی مر جاتا اور پ پر بھی کسی قسم کا الزام نہ آتا‘ اب اگلا سوال یہ تھا توہین کیسے کی جائے؟ پ اس عمل سے واقف نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ ان پڑھ تھا اور یہ اسلام کے بارے میں بھی زیادہ نہیں جانتا تھا‘ اس معاملے میں ایک شخص نے اس کی مدد کی‘ عمیر مسیح عرف راجہ کے ساتھ اس کی بھی عداوت تھی۔

وہ بھی اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا‘ پ نے اس شخص کے مشورے پر تعلیم بالغاں میں داخلہ لے لیا اور چند الفاظ لکھنا سیکھ لیے‘ پ کو قانون کی دفعہ 295 سی (یہ دفعہ توہین رسالت کے لیے استعمال ہوتی ہے) کا بھی علم تھا‘پ نے اس مکروہ حرکت کے لیے باقاعدہ تیاری اور پلاننگ کی ‘ اس نے بازار سے قرآن مجید خریدا‘ مختلف دکانوں سے کاغذ اور قلم خریدے‘ توہین آمیز فقرے لکھنے کی پریکٹس کی اور آخر میں قرآن مجید کے اوراق کی توہین کی‘ کاغذوں پر توہین آمیز فقرے لکھے‘ ان کے نیچے عمر مسیح اور عمیر مسیح (راجہ) کے نام‘ پتے اور شناختی کارڈ لکھے‘ فیس بک سے راجہ کی اس کے والد کے ساتھ تصویر نکالی۔

اس کے پرنٹ لیے اور ان کی دو کاپیاں بنا کر دو مختلف فرقوں کے مضبوط ترین علماء کے گھروں کے سامنے پھینک دیں اور خود گھر جا کر سو گیا‘ یہ بھی پتا چلا ’’پ ‘‘کو مشورہ دینے والے شخص کو بھی برطانیہ سے ایک آدمی مسلسل پیسے بھجواتا تھا‘ اس نے برطانیہ میں بیٹھ کر دونوں ملزمان کو توہین کا طریقہ بتایا تھا‘ بہرحال اس جسارت کا یہ نتیجہ نکلا 16اگست کو جڑانوالہ میں آگ لگ گئی۔

عیسائی برادری کے 85 گھر اور 23 چرچ جل گئے اور ملک پوری دنیا میں بدنام ہو گیا‘ پولیس نے پ سے پوچھا ’’تمہیں اس فساد کا کیا فائدہ ہوا؟‘‘ اس کا جواب تھا ۔   (بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں