تحریر: سید عارف مصطفی۔۔
قصور کی بےقصور زینب اور 8 دیگر معصوم نوعمر بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرڈالنے کا مجرم عمران علی تختہ دار پہ جھول کر بلآخر اپنے کیفرکردار کو پہنچا ۔۔ لیکن اسکی موت کو اس قدر عبرتناک نہ بنایا جاسکا جسکا کہ شدید تقاضا تھا اور اس ضمن میں ہماری عدلیہ و حکومت اور میڈیا تینوں کا پھسپھسا پن پوری طرح ابھر کے سامنے آگیا کہ وہ معاشرے کے سدھار کی ضمن میں نہ تو بنیادی اقدار کے تحفظ کے لیئے مؤثر کارکردگی کی حامل ہیںاور نہ ہی کسی گھناؤنے جرائم کی سزا کو عبرتناک بنا کے کسی اصلاحی قدم کو نتیجہ خیز بنانے کی سکت رکھتے ہیں۔۔ اس سلسلے میں عدلیہ کی لیت و لعل سے یہ بھی واضح ہوا کہ اسے اسلامی انداز میں مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں، ورنہ جس بینچ کے سامنے یہ مقدمہ رکھا گیا تھا کہ وہ مجرم عمران علی کے وحشیانہ جرائم کی سزا برسرعام دلوائیں تو انکی جانب سے بودے دلائل کی بنیاد پہ اپنی معذوری ظاہرکرنے اور عوامی دلچسپی کا یہ مقدمہ خارج کرنے کی نوبت نہ آپاتی ۔ درحقیقت اس عدالتی فورم سے اس قسم کی بہانے بازی بہت افسوسناک ہے ۔۔
میڈیا کا کردار بھی نہایت لائق تنقید ہے کیونکہ اس نے اس ضمن میں بریکنگ نیوز کا ڈھیر لگانے میں تو خوب دلچسپی لی لیکن مجرم کے پکڑے جانے کے بعد اسے برسرعام سزا دلانے کے مطالبے کومناسب طور پہ نمایاں کیا اور نہ ہی اس ضمن میں خود آگے بڑھ کے حکومت کے سرکردہ افراد سے وفود کی صورت ملنے یا رابطہ کرنے اور اپنے اپنے فورم پہ شدید احتجاج کرنے کی کوئی کوشش کی ،اسکا یہ رویہ یقینناً مایوس کن ہے کیونکہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں ابلاغ اور آگہی کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ذمہ داریاں معاشرتی اقدار اور قانون کے تحفظ سے پوری طرح جڑی ہوئی ہوتی ہیں اور اسکا یہ رویہ عمومی معاشرتی رویئے کا عکاس ہے جسکی ایک جھلک مکرم عمران علی کے محلے والوں کے رویئے میں پوری طرح جلوہ گر نظرآتی ہے کہ جنہوں نے اس ضمن میں بے حسی اورغفلت کا شرمناک مظاہرہ کیا کیونکہ کئی تحقیقاتی رپورٹوں سے یہ حقیقت کھل کے سامنے آئی کہ اس مجرم کی اخلاق باختگی اسکے اہل محلہ پہ پہلے ہی سے عیاں تھی لیکن اسکے باوجود انہوں نے اسے بے نقاب کرنے یا کم ازکم اسکا سوشل بائیکاٹ کرنے کے بجائے اسکو نعتیہ تقاریب میں بطور نقیب سرگرم رہنے اور مذہب کا مذاق اڑانے کی کھلی آزادی دے رکھی تھی۔۔
مؤثق اطلاعات کے مطابق مناسب شکل و صورت اور کسرتی بدن کے حامل اس مجرم نے اپنے جسمانی خصائل کے بل پہ اس سے پہلے کئی شادی شدہ خواتین کو بھی اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنساکے خوب گلچھرے اڑائے تھے حتیٰ کے پنڈی کی رہائشی ایک خاتون تو اپنا گھربار چھوڑ کے اسکے گھر آکے بیٹھ گئی تھی اور کافی دنوں تک اس مجرم نے اسکے ساتھ خوب عیاشی کی تھی لیکن بعد میں کئی دنوں کے بعد مجرم کے گھروالوں نے اسے وسائل کی تنگی کے باعث نکال دیا تھا۔ وہ اسکول اور کالج کی طالبات کا تعاقب کرنے اور انہیں چھیڑنے کے حوالے سے بھی بدنام تھا اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ مجرم کی اپنے گھر ہی کے بیرونی حصے میں جو دکان بنی ہوئی تھی اس پہ وہ متعدد مرتبہ ، ٹافیاں اور چیزیں لینے والے بچوں کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرنے کا مرتکب بھی پایا گیا تھا لیکن اسکے باوجود اسے سزا دینے اور میلاد کی محافل میں شرکت سے روکنے کی بھی کسی نے کوشش نہ کی تھی۔۔
ایک افسوس کی بات یہ بھی سامنے آئی کہ مجرم عمران علی کے دوستوں کا حلقہ معروف طور پہ نہایت گھناؤنے نوجوانوں پہ مشتمل تھا جن میں ایک حافظ کے لقب والا شخص بھی تھا جو اسکے کئی جنسی جرائم کا شریک کار تھا اور وہی اسے شادی شدہ و کنواری لڑکیوں کے ساتھ جنسی جرائم سے مزید آگے پہنچانے کا ذریعہ بنا اور اسنے ہی عمران علی کو اپنے ‘خاص’ تجربات سے مستفید کرتے ہوئے نوعمر بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی راہ پہ لگایا تاکہ عمران کے ذریعے اسکی اپنی گھناؤنی تسکین کا بھی اہتمام ہوتا رہے اور اس ضمن میں اسنے کئی بار خصوصی سہولت بھی فراہم کی – لیکن شرمناک بات یہ کہ اس حافظ اوراسکے حلقے کے دیگر بددنام افراد آج بھی قانونی گرفت سے آزاد گھوم رہے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اس گروہ کے مذموم ماضی و حرکات کے حوالے سے انہیں سزایاب کرانے کے لیئے میڈیا اپنا کردار ادا کرتا ہے یا نہیں کیونکہ فی زمانہ دنیا بھر میں میڈیا ہی ہے جو مجرموں کے تعاقب میں اور جرائم کی بیخنی کی مد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی سرگرم اور مؤثر کردار ادا کرتا ہے ۔۔۔پھر ہمارا میڈیا کیوں نہیں ۔۔۔؟؟(سید عارف مصطفی)۔۔