تحریر: جاوید چودھری۔۔
ملک سیلم وزیرآباد کے رہنے والے ہیں‘ یہ عین جوانی میں جاپان چلے گئے‘ نوکریوں سے عملی زندگی کا آغاز کیا‘ اپنا کاروبار شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ کام یاب ہوتے چلے گئے۔
یہ جاپان کے صوبے فوکو شیما کے ٹاؤن اواکی (Iwaki) میں رہتے ہیں‘ چین سے اپنی گاڑیاں بنوا کر لاطینی امریکا اور افریقہ کے ملکوں میں بھجواتے ہیں اور سالانہ تیس چالیس ہزار گاڑیاں بیچ دیتے ہیں‘یہ 35 برسوں سے جاپان میں رہتے ہیں لیکن ان کا اپنے شہر سے رابطہ نہیں ٹوٹا‘ یہ وزیرآباد میں ویلفیئر کے درجنوں چھوٹے بڑے پروجیکٹس چلا رہے ہیں‘ ان میں دستر خوان بھی شامل ہیں‘ وزیرآباد میں روزانہ سیکڑوں لوگوں کو عزت کے ساتھ کھانا کھلاتے ہیں۔میں پچھلے ماہ جاپان گیا تو برادرم عرفان صدیقی مجھے ان کے پاس لے گئے‘ ان سے ملاقات ہوئی تو ان سے دوستی ہو گئی‘میں سمجھتا ہوںدوست بھی رزق کی طرح ہوتے ہیں‘ انسان جس طرح اپنے حصے کا رزق کھائے بغیر دنیا سے نہیں جاتا بالکل اسی طرح ہم اپنے حصے کے دوستوں سے ملے اور ان کے ساتھ وقت گزارے بغیر بھی فوت نہیں ہوتے اور ملک سلیم بھی ایک ایسے ہی انسان ہیں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے ہم دونوں نے ابھی ایک دوسرے کے ساتھ بہت وقت گزارنا ہے۔
میں جب جاپان میں ان کے دفتر میں بیٹھا تھا تو انھوں نے ایک چھوٹا سا واقعہ سنایا‘وزیرآباد میں چند ماہ قبل ان کے دستر خوان پر ایک نوجوان موٹر سائیکل پر آیا اور اس نے موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے کیئر ٹیکر سے پوچھا ’’کیا پکایا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’گوشت‘‘ اس کا اگلا سوال تھا ’’گوشت چھوٹا ہے یا بڑا؟‘‘ کیئرٹیکر نے جواب دیا ’’گائے کا گوشت پکا ہے‘‘ نوجوان نے برا سا منہ بنایا‘ موٹر سائیکل کو کک ماری اور یہ کہہ کر واپس چلا گیا ’’ہم بڑا گوشت نہیں کھاتے‘ آپ لوگوں نے جس دن چھوٹا گوشت پکایا‘ مجھے اس دن بتانا میں کھانا کھانے آجاؤں گا‘‘۔
میں یہ سن کر قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا۔یہ واقعہ ہم پاکستانیوں کی اصلی اور کھری تصویر ہے‘ ہم من حیث القوم ایسے ہی لوگ ہیں‘ اوپر سے لے کر نیچے تک سیم ٹو سیم‘ ہم عملاً بھکاری ہیں لیکن ہمیں بھیک میں بھی چھوٹا گوشت چاہیے ‘ ہم برینڈڈ کشکول میں اپنی ٹرمز پر بھیک مانگتے ہیں اور بھیک دینے والا نخرے کرے تو ہم ناراض ہو جاتے ہیں‘ ہم کوئی کام نہیں کرتے لیکن موٹر سائیکل ہمارے پاس نیا ہوتا ہے‘ ہم روزانہ صاف ستھرے کپڑے پہنیں گے‘ مانگ کر پٹرول ڈلوائیں گے اور پھر مختلف دستر خوانوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں گے ہم آج لنچ کہاں کریں گے اور ڈنر کہاں فرمائیں گے اور اس دوران اگر کوئی مخیر شخص ہم سے یہ پوچھ بیٹھے’’ بھائی آپ کام کیوں نہیں کرتے‘‘ تو ہم برامان جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ہمارے پاس پلان بی بھی موجود ہے تم اپنی بھیک اپنے پاس رکھو‘‘ آپ یقین کریں یہ ہماری قومی پالیسی ہے۔
ہم اقوام عالم سے اکڑ کر مانگتے ہیں اور ایک گھر سے انکار کے بعد دوسرے گھر کی طرف نکل جاتے ہیں اور اس معاملے میں ہم اوپر سے نیچے تک ایک جیسے ہیں‘ میں نے چند دن قبل وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے جاپانی وزٹ کی تصویریں دیکھیں‘ ایک تصویر میں یہ پورے اعتماد کے ساتھ سینہ پھلا کر کھڑے تھے اور ایک بوڑھا جاپانی جھک کر ان کے ساتھ ہاتھ ملا رہا تھا‘ میں نے اپنے ایک دوست کو تصویر بھجوائی اور اس سے پوچھا ’’یہ جاپانی کون ہے؟‘‘
پتا چلا اس کا نام شن ایمی زومی (Shun Amizumi) ہے‘ یہ دنیا کی دوسری بڑی کنسٹرکشن کمپنی کوماتسو (Komatsu) کی ٹاپ مینجمنٹ میں رہاتھا‘ یہ 35 سال پاکستان میں اس کمپنی کا سربراہ بھی رہا اور اس نے جاپان اور پاکستان کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیاتھا‘ شن جاپان پاکستان ایسوسی ایشن کا چیئرمین بھی ہے‘ یہ اب تک پاکستان کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچا چکا ہے مگر آپ بلاول بھٹو اور شن ایمی زومی کی باڈی لینگوئج دیکھ لیجیے‘ ایک طرف ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر ایڑھیاں رگڑنے والے ملک کا وزیر خارجہ اکڑ کر کھڑا ہے جب کہ دوسری طرف 26بلین ڈالر کی کمپنی کا نمایندہ عاجزی سے سر جھکا کر اس سے مل رہا ہے۔
آپ اسی طرح جاپان کے وزیر خارجہ یوشی ماسا حیاشی (Yoshimasa Hayashi)اور وزیراعظم فومیو کی شی دا(Fumio Kishida)کی بھی بلاول بھٹو سے ملاقات کی تصاویر بھی دیکھ لیں‘ آپ کو یوں محسوس ہو گا بلاول بھٹو جاپانی وزیراعظم یا وزیر خارجہ ہیں جب کہ دوسری جانب کوئی تیسری دنیا کے وزیر کھڑے ہیں اور یہ بلاول بھٹو سے امداد مانگ رہے ہیں۔
ہم بھی کیا قوم ہیں! ہم ایک طرف تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں‘ ہم ڈیفالٹ کے کنارے پر کھڑے ہیں اور ہمیں اگر آئی ایم ایف سے تنکے کا سہارا نہ ملتا تو ہم اب تک دنیا کی پہلی ڈیفالٹ نیوکلیئر پاور کا اعزاز حاصل کر چکے ہوتے جب کہ دوسری طرف صرف بلاول بھٹو اور حنا ربانی کھر نے ایک برس میں بیرونی دوروں پر پونے دو ارب روپے خرچ کر دیے ‘میں دل سے سمجھتا ہوں وزیرخارجہ کو اپنا زیادہ تر وقت بیرون ملک گزارنا چاہیے۔وزیر خارجہ کی جاب ہی دوسرے ملکوں سے تعلقات بہتر بنانا ہے اور اگر وزیر خارجہ ملک میں بیٹھا رہے گا تو پھر داخلہ اور خارجہ میں کیا فرق رہ جائے گا لیکن کیا سرکاری جہازوں پر جانا اور تیس تیس لوگوں کو ساتھ لے کر جانا اور پھر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رہنا بھی ضروری ہے؟ اور کیا سرکاری دورے پر اپنی ہمشیرہ آصفہ بھٹو کو بھی لے جانا لازم ہے؟ اس کا کیا جواب ہے؟ ہمارے وزیر خارجہ ایک پرسنل اسسٹنٹ کے ساتھ کمرشل فلائٹ پر باہر کیوں نہیں جاتے اور یہ وہاں سفیر کی گاڑی کیوں استعمال نہیں کرتے اور یہ سفیر کی رہائش گاہ یا ایمبیسی میں کیوں نہیں رہتے؟
بے شک آصفہ بھٹو بھی بھائی کے ساتھ باہر جائے لیکن وہ دورہ سرکاری نہیں ہونا چاہیے‘ آپ اپنے پرائیویٹ دوروں پر جس کو چاہیں اور جہاں چاہیں لے جائیں‘ یہ ملک سرکاری دوروں پر خاندان کے لوگوں کو افورڈ نہیں کر سکتا‘ دوسرا جب بھی سرکاری دوروں کے اخراجات کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو بلاول بھٹو کے ترجمان کی طرف سے جواب آجاتا ہے بلاول صاحب اپنے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں اور آصفہ بھٹو کا ٹکٹ بھی خاندان نے خریدا تھا‘ یہ جواز ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ ہے اگر بلاول بھٹو اپنے اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں تو پھر وزیر خارجہ کے سرکاری دوروں پراربوں روپے کیسے خرچ ہو رہے ہیں۔
دوسرا جب آپ سرکاری جہاز لے کر جا رہے ہیں تو پھر آپ ’’اپنا ٹکٹ‘‘ کیسے خرید رہے ہیں اور اپنے اخراجات خود کیسے برداشت کر رہے ہیں اور فرض کریں اگر بلاول بھٹو واقعی اپنے اخراجات خود اٹھا رہے ہیں تو بھی اصراف اور نمائش کی کوئی تک بنتی ہے‘ ہم ایک انتہائی غریب بلکہ بھکاری ملک ہیں لیکن ہم جب بھی امداد لینے جاتے ہیں تو پورے دھوم دھڑکے سے بارات لے کر جاتے ہیں اور ہمارے لائف اسٹائل اور باڈی لینگوئج سے یوں محسوس ہوتا ہے ہم لینے نہیں بلکہ دینے آئے ہیںلہٰذا سوال یہ ہے کیا ہم اس طرز حکمرانی کے ساتھ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکیں گے؟۔ہم اگر جاپان اور پاکستان کی ایکسپورٹس اور فارن ایکسچینج ریزروز کا تقابل کریں تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے‘ ہماری کل ایکسپورٹس 20 بلین ڈالر ہیں جب کہ جاپان نے پچھلے سال746 بلین ڈالرز کی ایکسپورٹس کی تھیں‘ ہمارے فارن ایکسچینج ریزروز چاربلین ڈالرز ہیں جب کہ جاپان کے مالیاتی ذخائر 1254بلین ڈالر ہیں۔آپ ان اعدادوشمار کے ساتھ جاپان کے لیڈرز اور اپنے لیڈرز کی باڈی لینگوئج اور لائف اسٹائل دیکھ لیجیے‘ آپ کو فوراً جاپان کی ترقی اور اپنی پستی کی وجہ سمجھ آ جائے گی‘ بلاول بھٹو خود دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں اگر 1254 بلین ڈالر کے مالک جاپان کا وزیر خارجہ پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے توکیا وہ اپنی ہمشیرہ کو ساتھ لاسکے گا اور اگروہ یہ غلطی کربیٹھے تو جاپان میں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟
اور دوسرا کیا وہ سرکاری رقم سے حیات روپونگی (Hyatt Roppongi)جیسے فائیو اسٹار ہوٹل میں رہ سکے گا؟ جی نہیں‘ یہ سفارت خانے میں رہے گا یا پھر سفیر کی رہائش گاہ پر رات گزارے گا مگریہ اپنے ٹیکس پیئر کے پیسے ضایع نہیں کرے گا اور رویوں کا یہ وہ فرق ہے جن کی وجہ سے آج جاپان جاپان اور پاکستان پاکستان ہے‘ ہمیں ڈیٹا اور تاریخ بتاتی ہے عاجزی اور سادگی دونوں وہ ایٹمی عادتیں ہیں جو انسان اور قوموں کو عظیم بناتی ہیں جب کہ ہم بحیثیت قوم ان دونوں خوبیوں سے محروم ہیں۔
آپ افسروں سے لے کر بزنس مینوں تک دیکھ لیں آپ کو ان میں اکڑ اور نمائش ملے گی‘ آپ اس کے مقابلے میں کبھی انڈیا جا کر دیکھیں‘ ان کے لیڈرز اور ارب پتیوں میں عاجزی بھی ملے گی اور سادگی بھی جب کہ ہمارے بھکاریوں کے پاس بھی اسمارٹ فون ہوتے ہیں اوریہ بھیک بھی پوری بدمعاشی کے ساتھ مانگتے ہیں‘ آپ انڈیا میں ان کی صدردروپدی مرمو‘ وزیراعظم نریندر مودی اور آرمی چیف منوج پانڈے کو دیکھ لیں‘ آپ کو ان میں سادگی اور عاجزی دونوں ملیں گی جب کہ سرحد کی اس طرف یہ دونوں غائب ہیں‘یہ صورت حال افسوس ناک ہے لیکن یہ صورت حال دن بہ دن مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔
یہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے چناں چہ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا ہمیں جاپان بننا ہے یا پھر پاکستان ہی رہنا ہے‘ ہمیں اگر جاپان بننا ہے تو پھر ہمیں امداد اور بھیک کے ٹریپ سے بھی نکلنا ہوگا اور شاہی اخراجات سے بھی جان چھڑانی ہو گی‘ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا ہمارے صدر‘ وزیراعظم اور وزراء کمرشل فلائٹس پر سفر کریں‘ بیرون ملک ان کے لیے کرائے پر گاڑیاں بھی نہ لی جائیں اور یہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بھی نہ رہیں‘ یہ سفیر کی رہائش گاہ یا ایمبیسی میں رہیں اور یہ مہنگے سوٹس بھی نہ پہنیں۔
خدا کی پناہ آدھے ملک کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں اور وزیر دس دس لاکھ روپے کے سوٹ پہن کر جہاز لے کر کبھی امریکا چلے جاتے ہیں اور کبھی چین اور اس کے باوجود ہمیں شرم بھی نہیں آتی۔(بشکریہ ایکسپریس)
جاپان کیسے بن سکتے ہیں؟
Facebook Comments