تحریر۔راؤ محمد جمیل
شہر قائد میں صرف دو درجے کے صحافی پائے جاتے ہیں ایک اعلیٰ درجے کے جن میں مختلف لیڈران اور انکے خصوصی چمچے جبکہ دوسرے درجے میں عام صحافی شامل ہیں اعلیٰ درجے کے صحافی تعدادمیں انتہائی قلیل ہونے کے باوجود وہ صحافت پر راج کرتے ہیں مختلف اداروں کے مالکان اور حکمرانوں سے خصوصی مراعات حاصل کرتے ہیں اپنے اہل خانہ کیلئے پر آسائش سہولیات حاصل کرکے پوش زندگی گذارتے ہیں لیکن اپنے چمچوں کو بھی نوازتے ہیں جبکہ دوسری جانب عام صحافی بے روز گاری ، تنخواہوں اور واجبات کی عدم دستیابی کی دلدل میں دھس کراہل خانہ سمیت المناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مراعات یافتہ صحافی طبقہ مختلف صحافی تنظیموں اور اداروں پر ہی نہیں پریس کلب پر بھی قابض ہے وہ عام صحافیوں کو اقدار صحافت کی سیڑھی تو سمجھتے ہیں وائے افسوس کبھی انکے دکھ درد اور انکی فاقہ کشی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ انکے چمچے انہیں لیڈر اور مسیحا قرار دینے کیلئے مراعات اور مال غنیمت میں سے چند بچے کھچے ٹکڑوں کی خاطر ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے دن رات انکی نغمہ سرائی کی ڈیوٹی بھی سرانجام دیتے ہیں اب تو ویسے بھی سیاسی جماعتوں اور خصوصاً جماعتیوں کی ایک فوج پریس کلب اور بعض صحافتی تنظیموں میں شامل کردی گئی ہے تاکہ ان خود ساختہ اور مفاد پرست صحافی لیڈروں کی اجارہ داری قائم رہے اگر کوئی عام صحافی حق گوئی کی گستاخی کرے تو انکے چمچے اسکی کردار کشی اور روایتی جماعتی انداز میں دھمکیوں اور سازشوں سے بھی باز نہیں آتے وہ ایسے دیانت دار عام صحافیوں کے مقابلے میں بدنام لینڈ مافیا اور جرائم پیشہ قوم پرست اور کالعدم جماعتوں کے کارندوں کی بھی سہولت کاری کرتے ہیں کیونکہ یہ حادثاتی صحافی ہوتے ہیں جنہیں نام نہاد لیڈران حصول اقتدار کیلئے ناصرف صحافت کے مقدس پیشے میں لاتے ہیں بلکہ صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کی ممبر شپ بھی مہیا کرتے ہیں چاہے وہ کسی جماعتی ادارے میں اے کے فورٹی سیون کے ساتھ ڈیوٹی دیتے رہے ہوں، یا کمپیوٹر آپریٹر کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے ہوں میں چاہوں گا کہ ہمارے وہ صحافی جو خود کو انتہائی سینئر اور صحافیوں کا خیر خواہ کہتے ہیں اور کسی نہ کسی صحافتی تنظیم سے وابستہ ہیں یا کسی ادارے میں اعلی عہدے پر فائز ہیں وہ محمد فہیم کی بےروزگاری کے باعث ہونے والی اس المناک موت پر کم از کم دل چھو لینے والی پوسٹ ہی لکھ دیں بالکل ویسی پوسٹ جیسی نسلہ ٹاو ر پر لکھی گئی، چڑیا گھر کے شیر کی بھوک سے موت پرتو یہ صحافی لیڈران حرکت میں آئے لیکن ایک انسانی جان شاید ان کے لئے زیادہ اہم نہیں ۔انہیں چاہیئے کہ اپنی تحریروں سے میڈیا مالکان کی دھجیاں اڑادیں تاکہ مالکان کو بھی علم ہو کہ ابھی صحافت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان کا گریبان پکڑ سکتے ہیں۔ فضول اینکرز اور نام نہاد تجزیہ کاروں کو چالیس چالیس لاکھ تنخواہیں دیتے ہیں لیکن ایک غریب ورکر کی بیس سے تیس ہزار تنخواہ دیتے ہوئے ان میڈیا مالکان کو موت آجاتی ہے۔ موت تو ان میڈیا مالکان کو بھی آنی ہے پھر جب اللہ کے سامنے فہیم جیسے خودکشی کرنے والے میڈیا ورکرز ان کا دامن پکڑیں گے تو کہیں گے کاش مہلت مل جاتی۔ آخر میں یہ باور کروانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ نام نہاد لیڈران عام صحافیوں کے مرنے کے بعد انکی آخری رسومات میں مدد اورقصیدہ گوئی کی بجائے انکو اہل خانہ سمیت زندہ رہنے کے حق کیلئے کردار ادا کریں ایسا نہ ہو کہ عام صحافی کوئی انقلابی قدم اٹھا لیں گے تو پھر نہ آپکی لیڈری بچے کی نہ ہی چمچے ۔(راؤ محمد جمیل)۔۔