siyasi tareekh or mazhar abbas

جنگ اور جیوصرف برانڈز نہیں۔۔

تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔

میرے نزدیک ہمارا میڈیا اپنی مختلف پالیسیوں سے سیاست کا بازار بہرحال گرم رکھتا ہے اور اس کی پالیسی کچھ بھی ہو ایک حد تک اس میں خیر کا یہ پہلو بھی نکل آتا ہے کہ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے سامنے تصویر کے دونوں رخ آجاتے ہیں اور یوں وہ اپنی رائے قائم کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت ایک بہت جانباز قسم کا میڈیا عوام کے درمیان موجود ہے یہ جنگ اور جیو کی صورت میں رجزیہ کلمات کے ساتھ روزانہ میدان کار زار میں اترتا ہے، اس کے سالار میر شکیل الرحمٰن اور ان کے دست و بازومیر ابراہیم ہیں، ایک وقت تھا کہ میں بھی یہ سمجھا کرتا تھا کہ سرمایہ دار کسی بھی ایشو پر کبھی اسٹینڈ نہیں لے سکتامگر جنگ اور جیو گزشتہ دو تین دہائیوں سے مسلسل جمہوریت، فرد کی آزادی، ترقی پسندانہ رجحانات اور آمریت کے حوالےسے ایک واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ابھی تک کروڑوں اربوں روپے کا نقصان برداشت کر بیٹھے ہیں صرف یہی نہیں نازو نعم میں پلا ہوا نرم و نازک احساسات کا مالک میر شکیل الرحمٰن اپنے اصولوں کی پاسداری کی خاطر قیدو بند کے مراحل سے بھی گزر چکا ہے انہیں پیغام پہنچایا گیا کہ دس کروڑ یا اس سے کم و بیش رقم ادا کردیں تو ان کی قیدختم کی جا سکتی ہے مگر میر صاحب کی مرحومہ والدہ نے بہت خوبصورت بات کہی کہ جو عزت اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے مل رہی ہے اس سے چند کروڑ روپوں کے لئے کیسے دستبردار ہوا جا سکتا ہے ۔

میر شکیل الرحمٰن اور ان کی انتہائی کومیٹڈ ٹیم نے صرف جنگ اور جیو کو ایک ’’برینڈ‘‘ ہی نہیں بنایا بلکہ ملک و قوم کی پائیدار بنیادوں کو مستحکم بنانے کے لئے ’’پاگلوں‘‘ کا ایک دستہ بھی تیار کر دیا ہے جو ذاتی نفع نقصان کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ بڑے سے بڑا خسارہ مول لے کر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے ان میں سے شہادت اور شہادت کے بہت قریب سے گزرنے والے جانباز صحافی بھی ہیں، ان کے گھروں کو بھی غیر محفوظ بنا دیا گیا ہے۔سچی صحافت کرنے والے یہ لوگ ان بے پناہ مراعات سے بھی محروم رہنا پسند کرتے ہیں جو ان کی ایک ’’ہاں‘‘ سے انہیں حاصل ہوسکتی ہیں ،میں اگر ان کا نام لینا چاہو ںتو وہ اتنے زیادہ ہیں کہ میرے کالم کی حدود میں نہیں سما سکیں گے ۔ان میں سے کچھ دوسرے اخبارات اور چینل سے بھی وابستہ ہیں مگر ان کی ایک تعداد کی تربیت اسی جمہوری درس گاہ سے ہوئی ہے جو آج پاکستان کا صف اول کا صحافتی ادارہ ہے اور جس سے منسلک ہونا اپنے طور پر ایک اعزاز ہے۔ اللہ کرے یہ ہمیشہ کسی مرحب کے سامنے وہی رجزیہ کلمات دہراتے رہیں جوحضرت علی حیدر کرارؓ نے دہرائے تھے !ایک معاشرتی علوم کے طالب علم نے پرچے میں پاکستان میں جمہوری ارتقا کے مراحل کا احاطہ کچھ اس طرح کیا ہے، ’’یہ ایک سفر ہے جو ووٹوں سے شروع ہو کر بوٹوں تک،بوٹوں سے شروع ہو کر نوٹوں تک اور نوٹوں سے لیکر لوٹوں تک جاری و ساری ہے ۔(بشکریہ جنگ)

ارشدشریف تصاویر لیک، پیمرا سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں