کراچی پریس کلب کی طرف سے جنگ اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر مدثر مرزا مرحوم کی یاد میں تعزیتی اجلاس منقد کیا گیا، اجلاس میں سینئر صحافیوں محمود شام، ہمایوں عزیز، نصیر ہاشمی، احمد حسن، مظہر عباس مقصود یوسفی، کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی، سیکرٹری پریس کلب شعیب احمد، اصفر عمران، مرحوم کے صاحبزادے ایڈوکیٹ واثق اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اس موقع پر مقررین نے مرحوم مدثر مرزا کو ان کی صحافی خدمات زبردست خراج تحسین پیش کیا اور ان کی رحلت کو صحافت سمیت بڑا نقصان قرار دیا، مقررین کا کہنا تھا کہ مرحوم مدثر مرزا ہمیشہ آزادی صحافت کے عملبردار رہے، انہوں نے اییٹوریل میں ایڈیٹوریل میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جبکہ ہمیشہ کارکنوں کی فلاح وبہبود میں سرگرم عمل رہے۔ سینئر صحافی محمود شام نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدثر مرزا آمریتوں کیخلاف کراچی پریس کلب کی جدوجہد کا ہمیشہ ذکر کیا کرتے تھے، وہ آمریتوں کیخلاف آزادی صحافت کی جدوجہد کا حصہ رہے، آمریتوں کا دور ہو یا جمہوری بادشاہوں کا وقت، جنرل مشرف کے دور حکومت میں 77 روز تک جیو کی بندش ہو یا ن لیگ دور میں جنگ اخبار کو 4 صفحات تک محدود کرنا، انہوں نے ہر طرح کے کٹھن حالات میں ہمت سے کام لیا، وہ کبھی دباو میں نہ آئے، انہوں نے کہا کہ صحافت ایک بڑے نام سے محروم ہوگئی، سینئر صحافی ہمایوں عزیز نے کہا کہ وہ مدثر مرزا بہت خوبیوں کے مالک تھے، انہوں نے اپنی محنت، لگن اور اپنے کام میں پیشہ وارانہ مہارت سے ترقی کی منازل طے کیں اور روزنامہ جنگ کے ڈپٹی ایڈیٹر اور انچارج ایڈیٹوریل کا منصب حاصل کیا، سینئر صحافی نصیر ہاشمی نے مرحوم مدثر مرزا کیساتھ گزرے چالیس برسوں کی رفاقت کا ذکر کرتے کوئے کہا کہ وہ پیشہ ور صحافی تھے، سینئر ہو یا جونیئر وہ ہر ایک کیساتھ ملنسار تھے، نظریاتی وابستگی کو ہمیشہ بالائے طاق رکھا اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو مقدم سمجھا، سینئر صحافی افسر عمران نے کہا کہ مدثر مرزا زندہ دل آدمی تھے، ہارٹ اٹیک سے ان کی موت کی خبر نا قابل یقین تھی، سینئر صحافی مقصود یوسفی نے کہا کہ مدثر مرزا اپنے نظریات پر کٹر ہونے کے باوجود ہر ایک کے نظریات کا احترام کرتے تھے، ایڈیٹوریل پر ان کی گرفت مظبوط تھی، وہ ہمیشہ اپنے جونیئرز کی رہنمائی کرتے تھے، سینیر صحافی مظہر عباس نے کہا اخبار میں ڈیسک پر کام کرنے والے لوگ گمنام سپاہی ہوتے ہیں، اخبار کی خوبصورتی یا غلطیوں کی ذمہ داری انہی کی ہوتی ہے، اس منصب پر کام کرنے کا دباو ناقابل بیان ہوتا ہے، مدثر مرزا نے کراچی کے بدترین حالات میں بھی اس دباو کا پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے سامنا کیا، انہوں نے سیکڑوں شاگرد پیدا کئے، سینئر صحافی احمد حسن نے کہا کہ مدثر مرزا پر اللہ کی خاص رحمت تھی، وہ اپنے والدین کے فرمانبردار اور خدمت گزار تھے، وہ ایک طالبعلم رہنما اور وکیل بھی رہ چکے تھے، ان کے تعلقات بہت زیادہ تھے تاہم انہوں نے ان تعلقات کو ہمیشہ اپنی ذات کی بجائے کارکنوں کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کیا۔ صدر پریس کلب کراچی سعید سربازی اور سیکرٹری شعیب احمد نے مدثر مرزا کی پریس کلب کے لئے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی رحلت کو نہ صرف صحافت بلکہ پریس کلب کے لئے بھی ایک بڑا نقصان قرار دیا اور انہوں نے مرحوم کے اہلخانہ کیساتھ ہر طرح کے تعاون کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر مرحوم کے صاحبزادے ایڈوکیٹ واثق نے کہا کہ وہ صرف میرے والد ہی نہیں بلکہ ایک اچھے دوست اور رہنما بھی تھے، پروفیشنل لائف میں ہمیشہ ان سے رہنمائی حاصل کی اور آج جو کچھ ہوں وہ انہی کی بدولت ہے، انہوں نے مرحوم مدثر مرزا کی یاد میں تعزیتی اجلاس منعقد کرنے پر پریس کلب اور صحافی برادری کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے دعا بھی کی گئی۔
جنگ کے ڈپٹی ایڈیٹر کی یاد میں تعزیتی اجلاس۔۔
Facebook Comments