تحریر: طاہر جعفری۔۔
روزنامہ جنگ سے پچاس فیصد ملازمین فارغ کرنے کی مصدقہ اطلاع۔چند دن میں فراغت کے لیٹر دیئے جائینگے۔تاحال ریگولر ملازمین کو بھی سیلری نہیں ملی۔ادارے نے اپریل اور مئی کی تنخواہ نہیں دی جبکہ جون شروع ہوچکا ہے۔سوچیں ملازمین نے عید کیسے گزاری ہوگی۔جب یونین نے کرتا دھرتائوں سے تنخواہ کا مطالبہ کیا تو ڈھٹائی سے جواب دیا گیا کہ ہم تو بندے فارغ کرنے والے ہیں تم تنخواہ کی بات کرتے ہو کیوں دل جلانے کی بات کرتے ہو۔خیر دل تو ان ملازمین کو دیکھ کر جلتا ہے جو تنخواہیں نہ ملنے کے باوجود جوق در جوق اپنے سیٹھ کی رہائی کیلئے کیئے جانے والے احتجاج میں شامل ہوتے ہیں۔تنخواہ نہ ملنے کے باعث ان کے چہروں پر حسرت و یاس صاف دیکھا جا سکتا ہے۔صاف نظر آتا ہے ہے کہ انھیں اس احجاج میں شمولیت کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔انہیں ہانک کر لایا جاتا ہے۔اس احتجاج میں بہت سے ہشاش بشاش چہرے بھی نظر آتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اس احتجاج کے عوض معاوضہ وصول کرتے ہیں۔مراعات لیتے ہیں۔بھاری تنخواہیں لیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو بیچ دیتے ہیں۔ان کے چہرے اور موٹی توندیں صاف بتاتی ہیں کہ یہ حرام خور ہیں۔میں ہمیشہ سے اپنے کارکن دوستوں سے التماس کرتا آرہا ہوں کہ ایسے نام نہاد لٹیرے اور بے ضمیر لیڈروں کے جھانسے میں آکر ظالم سیٹھوں کے لیئے مظاہرے نہ کرو ان مظاہروں سے آپ کو کچھ نہیں ملے گا اور بکائو لیڈر اپنا پہلے ہی لے اڑے ہیں۔اگر میری گزشتہ پوسٹیں آپ کی نظر سے گزری ہو تو ان میں آپ دوستوں سے واضح طور پر درخواست کی گئی تھی کہ ٹھیک ہے سیٹھ کی رہائی کیلئے نعرے لگائو لیکن کچھ مطالبات اپنے بھی تو منوائو اور وہ مطالبات بالکل جائز ہیں اپنی سیلری بروقت لینا اور بلا جواز نوکری سے نہ نکالے جانا جیسے دراصل آپ کا حق ہے۔لیکن کسی نے اس حوالے سے آواز نہیں اٹھائی۔آپ کا سیٹھ ذہنی طور پر خود کو آقا اور اپنے ملازمین کو زرخرید غلام ہی تو سمجھتا ہے کہ میں ملازمین کو تنخواہ بھی نہ دوں۔جب چاہوں انہیں نوکری سے لات مار کر نکال دوں اور جب مجھ پر کوئی افتاد آئے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے میری چوری چکاری لوٹ مار اور بے ایمانی کا نوٹس لیں اور احتساب کریں تو یہی کارکن میرے حق میں مظاہرے بھی کریں۔آقا اور غلام والی سوچ سیٹھ کے ذہن میں بکائو لیڈروں اور خود کارکنوں نے پروان چڑھائی ہے۔لیڈر سیٹھ کو باور کراتے ہیں کہ جناب سیٹھ صاحب آپ فکر نہ کریں جو دل چاہتا ہے کریں کچھ نہیں ہوگا۔یہ کارکن کوئی چوں چراں نہیں کرینگے۔اور ہوتا بھی یہی ہے کہ کارنوں کے ساتھ جو سلوک چاہے کیا جائے یہ بیچارے ہر صورت میں چپ ہی رہتے ہیں۔میں ان کو بتاتا چلوں کہ ہر مرتبہ محاورے درست نہیں ہوتے۔یہاں بھی ایک چپ سو سکھ والا محاورہ غلط ہی ثابت ہوا۔آپ چپ رہے اور سیٹھ و بکائو لیڈروں کے حوصلے بڑھتے گئے۔ان کے حوصلے اس قدر بڑھے کہ یہ ظالم خود کو خدا سمجھنے لگے اور آپ کو بیروزگار کرنے اور آپ کے بچوں کو بھوکے مارنے پر تل گئے۔یہ ظلم اب بھی رک سکتا ہے۔ان کے حوصلے اب پست ہوسکتے ہیں ان کے ناپاک عزائم اب بھی خاک میں مل سکتے ہیں۔بس زرا ہمت سے کام لینا ہوگا۔دوستوں اب بھی وقت ہے فیصلہ کرو کہ اطلاعات کے مطابق جن کو فارغ کیا جائے اور جو باقی بچ جائیں سب کام چھوڑ دیں اور اپنے تمام ساتھیوں کی بحالی اور تنخواہ کے حصول کیلئے جدو جہد کریں۔کچھ پانے کیلئے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔کچھ قربانی دینا پڑتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہر جدو جہد کامیاب بھی ہو یا فوری طور پر کامیاب ہو۔لیکن اس کا اثر ضرور ہوتا ہے آنے والوں کیلئے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔سیٹھوں کی بھی آنکھیں کھلتی ہیں کہ اچھا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔اس طرح سے بکائو لیڈروں کے کارکنوں کو قابو کرنے کے دعووں کی بھی قلعی کھل جائیگی۔آپ لوگوں کی اہمیت بھی بڑھے گی اور صرف باتیں کرکے اور چمچہ گیری کرکے اپنی اہمیت بنانے والے رانگ نمبریوں کی اصل حقیقت کا بھی پردہ فاش ہوجائیگا۔مجھے امید تو نہیں کہ یونین آپ کا ساتھ دیگی لیکن پھر بھی ان کو اپنے ساتھ چلنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش ضرور کی جائے۔(طاہر جعفری،جنرل سیکرٹری نیشنل یونین آف جرنلسٹس)
(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔