تحریر: محمد بلال غوری۔۔
میر شکیل الرحمٰن کو ایک بار پھر جسمانی ریمانڈپر نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے کیونکہ 13روزہ ریمانڈ کے ذریعے ان کے فولادی عزم کو نہیں توڑا جا سکا۔ باالعموم ملزموں کا جسمانی ریمانڈ تب لیا جاتا ہے جب کسی فوجداری مقدمہ میں آلۂ قتل برآمد کرنا ہو یا پھر چالان جمع کروانے کے لیے شواہد جمع کرنا ہوں۔حکام میر شکیل الرحمٰن کا بار بار ریمانڈ لیکر وہ’’آلۂ قلم‘‘ برآمد کرکے تحویل میں لینا چاہتے ہیں جس کے ذریعے کہیں ان کی نااہلی کا پول نہ کھل جائے۔ انہیں شکیل الرحمٰن سے وہ قلم چھیننے کو کہا گیا ہے جس کے بارے میں رومن شاعر ورجل نے کہا تھا، جنگی ہتھیاروں کے سامنے میرے نغمے ایسے ہی ہیں جیسے کہ عقاب کے سامنے فاختہ۔
انہیں تاریخ سے شناسائی نہیں، وہ رابرٹ برٹن کو نہیں جانتے مگر 17ویں صدی میں کہے گئے اس کے جملے پر ایمان رکھتے ہیں کہ لفظ کی مار تلوار کے زخم سے زیادہ گہرا زخم دیتی ہے۔ ان کی کوشش ہے کی میرِ صحافت سے وہ ’’آلۂ قلم‘‘ چھین لیں جس کے بارے ڈرامہ نگار ایڈورڈ بل ورلیتوں نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے میں لکھا تھا، قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔وہ شاید نپولین کی بات نہیں بھولے کہ ایک طرف ہزاروں سنگینیں ہوں اور دوسری جانب چار اخبار تو ان چار اخباروں کی مخالفت سے ڈرنا چاہئے۔ یہ بھی اخبار اور ٹی وی کی طاقت سے خوف زدہ ہیں، ابلاغ کی روشنی سے ڈرتے ہیں، خبر کی چوٹ سے سہمے جاتے ہیں۔ بعض دوستوں کو خوش فہمی تھی کہ دوسری پیشی پر آزمائش وامتحان کی گھڑی تمام ہو جائے گی مگر مجھے یقین تھا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
یادش بخیر، تیسری بار کسی ایڈیٹر انچیف پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور استبداد میں ’’چٹان‘‘ کے مدیر عبدالکریم المعروف شورش کاشمیری کو حراست میں لیا گیا۔جنرل یحیٰ خان کے پُرفتن دور میں ڈان کے ایڈیٹر الطاف گوہر گرفتار ہوئے اور اب نام نہاد سول دورِ حکومت میں جنگ کے مدیر اعلیٰ میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا ہے۔جنگ گروپ نے ماضی میں بھی کئی بار مشکل وقت دیکھا مگر کسی صحافتی ادارے کے مالک کی گرفتاری کی ان تین مثالوں کے علاوہ کوئی نظیر نہیں ملتی۔ایجنڈا تب بھی یہی تھا اور اب یہی ہے کہ بےبنیاد مقدمات میں اُلجھا کر، قید وبند کی صعوبتوں سے ڈرا کر ’’آلۂ قلم‘‘ کو تحویل میں لے لیا جائے تاکہ راوی چین ہی چین لکھتا رہے اور ہر طرف سے سب اچھا کی رپورٹ آئے۔
بعض لوگ سوال اُٹھاتے ہیں کہ اس جنگ میں ہم میر شکیل کے سنگ کیوں کھڑے ہیں؟ گاہے ’’نمک حلال‘‘ کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ویسے اگر یہ تہمت یا دشنام نہ بھی ہو تو کیا مضائقہ ہے؟ کیا ’’نمک حرامی‘‘ کرنا کسی اعزاز یا امتیاز کی بات ہوا کرتی ہے؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، کسی کا رزق بڑھا یا گھٹا نہیں سکتا۔
قلمی مزدوری کا مشاہرہ وصول کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بات چاکری کی سطح پر آگئی ہے۔ بیشمار اہلِ قلم جو آج ’’جنگ‘‘ کا حصہ نہیں، وہ بھی اس جنگ میں شکیل الرحمٰن کے سنگ کھڑے ہیں کیونکہ یہ کسی فردِ واحد کی لڑائی نہیں، اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ ہے۔
میں آج کچھ ذاتی نوعیت کے تجربات و احساسات شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کئی اداروں میں کام کیا۔ ’’پاکستان‘‘ کے مدیر اعلیٰ مجیب الرحمٰن شامی کے ہاں لگ بھگ 17برس قبل بطور ایڈیٹوریل انچارج ملازمت کی مگر ان کی شفقت آج بھی میرا سرمایہ حیات ہے۔ ’’انصاف‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کم وبیش 3سال کام کیا، رخصت ہوتے وقت چیف ایڈیٹر جنید سلیم سے باوجوہ تلخی ہو گئی مگر آج بھی کوئی ان کا گلہ کرے تو چپ نہیں رہ پاتا۔
جنگ‘ کا ساتھ کم وبیش 10سال پر محیط ہے۔ جو لوگ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے دفتری مزاج سے واقف ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ جب کسی ادارے کا مالک کہہ دے کہ یہ خبر شائع نہیں ہوگی یا پھر یہ پروگرام نہیں چلے گا تو پھر اس پر بحث کی گنجائش نہیں رہتی۔اگر کوئی طاقتور شخصیت کسی صحافی سے خفا ہو جائے تو اسے خوش کرنے کے لئے ادارہ فوراً لاتعلقی کا اعلان کردیتا ہے لیکن جنگ گروپ کی اپنی روایات ہیں۔ ایک بار چیئرمین نیب چوہدری قمر الزماں سے متعلق کالم لکھا، کالم تمام مراحل سے گزرتا ہوا ایڈیٹر انچیف کی میز پر پہنچ گیا اور فیصلہ ہوا کہ کالم شائع نہ کیا جائے۔
میں ماڈل ٹائون میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں شریک تھا جب میر شکیل الرحمٰن کی ٹیلیفون کال آئی اور انہوں نے تقریباً 46منٹ تک مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ کالم کیوں شائع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ کسی کے ذریعے پیغام دیدیا جاتا کہ آپ کا کالم رُک گیا ہے۔اسی طرح جن دنوں عمران خان نے جنگ گروپ کا بائیکاٹ کر رکھا تھا، میں نے ایک تنقیدی کالم لکھا جو ناقابلِ اشاعت قرار پایا، بتایا گیا کہ کالم میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں لیکن ان حالات میں کالم شائع کرنے سے یہ تاثر لیا جائے گا کہ ہم ذاتیات پر اُتر آئے ہیں۔ میر شکیل الرحمٰن کی عاجزی و انکساری سے تو ایک زمانہ واقف ہے مگر ان کے بڑے صاحبزادے میر ابراہیم سے پہلی ملاقات بھی یاد آرہی ہے۔
لاہور کے پنج تارہ ہوٹل میں بات چیت ہو رہی تھی کہنے لگے، فلائٹ کا وقت ہو رہا ہے فرصت ہو تو ایئر پورٹ چلیں اس بہانے گپ شپ ہو جائے گی۔ میرا خیال تھا میڈیا ٹائیکون کا بیٹا ہے، اس کی بڑی گاڑی پر چلیں گے مگر تب حیرت ہوئی جب شکیل الرحمٰن کا بیٹا میری چھوٹی سی گاڑی میں بیٹھ گیا اور ڈرائیور کو کہا کہ ایئر پورٹ آجائو۔ایئر پورٹ اے ایس ایف کے ناکے پر رُکے تو میں دانستہ خاموش رہا تاکہ معلوم ہو یہ صاحب کیا کرتے ہیں، چپکے سے ٹکٹ نکالا اور کہا، سر! میری فلائٹ ہے۔میں نے بتایا کہ ایک سال کی بیٹی ہے جس کا نام عشل خان ہے، ہنس کر کہنے لگے میری بیٹی بھی ایک سال کی ہے اس کا نام آشا رحمٰن ہے۔ اب عشل اور آشا دونوں نو برس کی ہو گئی ہیں۔ اگر کسی ادارے کے مالکان اس کردار کے حامل ہوں تو ان کے سنگ کیوں نہ کھڑا ہوا جائے؟(بشکریہ جنگ)۔۔