تحریر: سید عون شیرازی۔۔
سچ بولوں تو میں نے لوگوں سے متاثر ہونا چھوڑ دیا ہے ، کیونکہ ہم جو شبیہ دل و دماغ میں بنا لیتے ہیں وہی شخصیت جب سامنے آتی ہے تو وہ شیشے کا بت پاش پاش ہو جاتا ہے ، جس پر ہم روز گلاب کے پھول چڑھاتے تھے ، میرے ساتھ ایسا کئی دفعہ ہو چکا ، جس کے بعد فیصلہ کیا کہ اب صرف نظریے کو فالو کرنا ہے شخصیات سے بالکل ایمپریس نہیں ہونا ، کیونکہ جب شخصیات کا عقل و شعور میں بنا امیج کرچی کرچی ہوتا ہے تو کچھ کھو جانے کا احساس ہوتا ہے، تدبر اور تخیل میں زلزلہ سا آتا ہے
لیکن کبھی کبھی ایسی شخصیت مل جاتی ہے کہ جس کے بعد انسان خود سمجھنے لگتا ہے کہ وہ اوپر بیٹھی خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہمارے سوچنے کا انداز اور برسوں سے اختیار کیا رستہ بدلنا چاہتی ہے
گزشتہ شب میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ، قصہ کچھ یوں ہے کہ لاہور سے صحافی دوست بدر سعید اسلام آباد میں تشریف لائے تھے اور ساتھ میں کے ایم خالد بھی تھے ، ہم پریس کلب سے نکلے تو بدر نے بتایا کہ روف کلاسرا صاحب سے ملنا ہے وہ لینے آ رہے ہیں ، میرا روف کلاسرا کے ساتھ یک طرفہ قسم کا رومانس تھا اور ہے، ناجانے کیوں مجھے روف کلاسرا صاحب اپنے جیسے لگتے ہیں ، ملاقاتیں تو کئی ہو چکیں لیکن لمبی بیٹھک کبھی نہ ہوئی ، ہم جب نیشنل پریس کلب سے ملحقہ پٹرول پمپ پر پہنچے تو جنابِ روف کلاسرا صاحب تشریف لاچکے تھے ، کلاسرا صاحب جتنے بڑے صحافی ہیں اس سے کئی گنا بڑے انسان ہیں اور اس چیز کا اندازہ مجھے گزشتہ شب ہوا ، گاڑی سے باہر نکلے اور بدر سے گلے ملے ، مجھے دیکھا تو بلند آواز میں کہا ، ایکسیلینسی شیرازی صاحب کیسے ہیں؟ آپ بھی ہمارے ساتھ چائے پیئیں نا
اب جب محبوب دعوت دے رہا ہو تو عاشق کی دل کی دھڑکن تیز ہونا فطری ہے اور ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی ، انکار میں تو کیا ہم تو اقرار میں بھی سر نہ ہلا پائے
آج اس راز سے بھی پردہ اٹھا دوں کہ روف کلاسرا میں مجھے عجب سی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے ، خیر ہم ایف سکس میں کافی بِین پہنچے
کلاسرا صاحب اور میں ٹیبل کی ایک طرف اور بدر سعید ہمراہ کے ایم خالد صاحب میز کی دوسری طرف بیٹھ گئے ، گفتگو شروع ہوئی ، کلاسرا صاحب نے بدر سعید سے کہا کہ تم ابھی تک عون شیرازی اور ہماری بھابھی کو لڑوا نہیں سکے ٹاسک ہے، کام تیز کرو ٹیسٹ نہیں ٹوینٹی ٹوینٹی کھیلو ، میں مسکرائے جا رہا تھا اور کلاسرا صاحب کو دیکھے جا رہا تھا ، میں نے کہا سر مجھے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے ایسی نوبت کبھی نہیں آئے گی تو تحقیقاتی صحافت کے آسمان پر چاند کی طرح روشن چوڑی پیشانی والے روف کلاسرا نے معنی خیز مسکراہٹ چہرے پر سجا کر ، ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے کہا ، شیرازی صاحب جب کلنٹن جیسا شخص پکڑا گیا تو آپ کہاں بچیں گے یہ اوور کانفیڈینس ہی مرواتا ہے ، اور میں بات سے زیادہ کلاسرا صاحب کا انداز انجوائے کر رہا تھا ، جس میں ایک بے ساختہ پن اور والہانہ پن تھا
روف کلاسرا کھلی ڈلی گفتگو کر رہے تھے ، اپنی فیملی کے قصے ، ملکی سیاست ، گیلانی صاحب کی یاری کے باعث عتاب اور معاشرتی منافقت
روف کلاسرا صاحب بولے ، میں میرٹ کو نہیں مانتا تو میرے کان کھڑے ہوئے ، ارے میرے آئیڈیلز میں سے ایک صاحب کہہ رہے ہیں، میرٹ بس محض استحصال کا ایک ذریعہ ہے ، میں نے اس حوالے سے سوال کیے تو کلاسرا صاحب نے مدلل جواب دئیے، ایک نقطہ یہ بھی تھا کہ اسلام آباد میں پڑھنے والے میرے بچوں اور جنوبی پنجاب میں زیرتعلیم میں رشتہ داروں کے بچوں میں کونسا مقابلہ اور کونسا میرٹ، خیر اس کے ساتھ مقابلے کے امتحان پاس کرنے والوں کے حوالے سے کلاسرا صاحب نے جو فرمایا وہ ایک علیحدہ تحریر کا متقاضی ہے
ہم سوال کیے جا رہے تھے اور صحافت کے دشت میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے معقول اور مقبول روف کلاسرا صاحب ایسے جواب دے رہے تھے یہ جیسے ہم اپنے ہم عمر کے ساتھ بیٹھے ہوں ، ویسے کلاسرا صاحب دکھنے میں کافی ینگ لگتے ہیں ، کلاسرا صاحب خود ہی آرڈر دینے کیلئے کاونٹر پر گئے ، مجھ سے رہا نہ گیا اور بدر کو یہ کہتے ہوئے کاونٹر کے پاس جا کر کلاسرا صاحب کے پہلو میں کھڑا ہو گیا کہ یار مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا کہ۔ روف کلاسرا ہمارے لیے کاونٹر پر آرڈر دے رہے ہوں اور میں کرسی پر بیٹھا ہوں ، کافی سمیت جتنی چیزیں آرڈر کی گئیں ، ایک ایک چیز چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ میزبان ، میزبانی کے ہنر میں یدطولیٰ رکھتا ہے ، خیر باتیں ہوئیں اور خوب ہوئیں ، قہقے لگے اور مسکراہٹیں بھی بکھریں
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی اس محفل میں ایک منٹ بھی ایسا نہ تھا۔ کہ جس میں کچھ سیکھنے کیلئے نہ ہو ، کیفے میں دو شخص روف کلاسرا صاحب کو پہچانتے ہوئے سلام کرنے آئے تو جس انداز میں کلاسرا صاحب نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور ان کے جانے تک کھڑے رہے اس نے بطور آئیڈیل ان کا قد میرے دل و دماغ میں مزید بڑھا دیا
روف کلاسرا اس انداز میں چیزوں کے بارے میں بتا اور سمجھا رہے تھے کہ جیسے بڑا بھائی شفقت سے سیدھی راہ بتاتا ہے ، تحقیقاتی صحافت کی وہ رمزیں سمجھائیں کہ دل عش عش کر اٹھا ، 20 لفظوں کی کہانی کے حوالے سے نپے تلے انداز میں اپنی رائے دی اور 500 سے 1000 الفاظ کی شارٹ سٹوریز لکھنے پر زور دیا
گفتگو کی روانیت ، شاندار انداز اور چہرے کی دلکشی مجھے اپنے قرب و جوار سے بے خبر کیے ہوئے تھی ، کیونکہ روف کلاسرا جب بولتا ہے تو پھر مزا صرف سننے میں ہوتا ہے
خیر صحافت ، ادب ، غرض کہ ہر موضوع پر گفتگو ہوئی ، روف کلاسرا جس انداز میں قرآن کے حوالے دے رہے تھے اس چیز نے میرے لیے سوچنے کے نئے انداز کی جانب توجہ مبذول کرائی
حق گو روف کلاسرا نے یہ بھی کہا کہ ہم بھی انسان ہیں ہماری بھی مجبوریاں ہیں سچ بولتے ہیں جتنا بول سکتے ہیں ، ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے کوشش سے بہتری کتنی آ رہی ہے ، حالات سے بددل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے باقی نتیجہ رب کی ذات پر چھوڑنا چاہیے
روف کلاسرا نے ہمیں ایک سینئر صحافی کی تیسری شادی کا مزیدار واقعہ بھی سنایا ، جس سے ہم خوب لطف اندوز ہوئے اور ساتھ میں یہ بھی محسوس کیا کہ ہماری طرح کلاسرا صاحب بھی ایسی باتیں محض دل پشوری کرنے کیلئے ہی کرتے ہیں ، یوں لگا کہ ہمارے پیارے سینئر کلاسرا صاحب کی بھی ایسی خواہش تھی کہ وہ بھی اپنے دوست کی طرح تیسری نا سہی دوسری تو کرتے لیکن اب ان کی یہ خواہش اندر اندر ہی مرے جا رہی ہے
کلاسرا صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پروگرام کی ٹیم میں ہر علاقے کی نمائندگی موجود ہے ، جس کی وجوہات بھی بتائیں ، ساتھ میں یہ بھی راز آشکار کیا کہ ان میں سے کسی کا بھی ماضی صحافتی نہ تھا لیکن اب میرے ٹیم شہر کی بہترین ٹیم ہے
شارٹ سٹوریز کے حوالے سے طے ہوا کہ میں لکھوں گا اور کلاسرا صاحب کو سناوں گا ، کلاسرا صاحب کا کہنا تھا کہ بدر سعید اور کے ایم خالد صاحب نہ بھی آ سکے تو تو میں اسی طرح کسی روز کافی پر شارٹ سٹوری سنوں گا
روف کلاسرا کی تمام باتیں سیدھی دل میں اتر رہی تھیں ، تحریر کی طوالت کے باعث باقی باتیں پھر کسی روز لکھوں گا
روف کلاسرا نے میری مسز کیلئے خصوصی طور پر ایک تحفہ بھی حوالے کیا ، اور دوبارہ تاکید کی کہ یار عون شیرازی بچ جا جب انسان پھنس جاتا ہے تو بیوی پرانی باتیں یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ہائے میں کتنی بھولی تھی کہ اُس وقت سمجھ نہ سکی
مجھے اور بدر سعید کو یو اے ای سفارتخانے کی طرف سے منعقد کی جانے والی سالانہ دن کی تقریب میں جانا تھا ، لیکن دل اٹھنے کو نہ کر رہا تھا
کلاسرا صاحب بولے بھائیوں لیٹ ہو رہے ہو ، ہم کیفے سے نکلے کلاسرا صاحب کی گاڑی میں بیٹھے اور پریس کلب پہنچے جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی
کلاسرا صاحب گاڑی سے اترے ، محبت اور شفقت سے لبریز انداز میں گلے ملے اور اگلی ملاقات کے وعدے کے ساتھ روانہ ہو گئے
سچ میں مجھے روف کلاسرا سے اگلی ملاقات کا شدت سے انتظار ہے۔۔(سید عون شیرازی)