تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
جناب رئوف کلاسرا سے کوئی ملاقات ہے نہ کسی “ابلاغی ذریعے” موبائل فون۔۔۔واٹس ایپ اور میسنجر وغیرہ سے کبھی گفتگو ہوئی۔۔۔۔۔میری ذاتی رائے ہے کہ کھوٹوں کے ہجوم میں وہ کھرے آدمی ہیں۔۔۔۔وہ کھلے دل کے معتبر اور معتدل صحافی ہیں۔۔۔۔۔وہ پیرا شوٹر نہیں۔۔۔۔انہوں نے دشت صحافت میں برسوں خاک چھانی۔۔۔۔۔کئی قد آور اکابرین صحافت کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے اور رپورٹر سے کالم نگار اور اینکر بن کر نام کمایا۔۔۔۔۔کلاسرا صاحب کے “کھلے دل” کی گواہی یہ ہے کہ میں کوئی بڑا کالم نگار نہیں۔۔۔۔۔گاہے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔میں نے دو ہزار بیس میں شکرگڑھ کے بابائے سیاست جناب انور عزیز کی وفات پرجناب خالد چودھری کے حوالے سے “ٹر گئے یار محبتاں والے” کے عنوان سےایک کالم لکھا تو وہ تڑپ اٹھے کہ ان کا بھی خالد چودھری صاحب کی طرح انور عزیز صاحب سے محبت کا رشتہ تھا۔۔۔۔کلاسرا صاحب نے خود بھی جناب انور عزیز کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا لیکن میرے کالم کو نا صرف سراہا بلکہ کھلے دل کے ساتھ اس پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا:
Very beautifully written.. one of best obituary/write up on Ch Anwar Aziz. A great learned man and great personality—you have summed up him well in your column Usmani sb.
کلاسرا صاحب کی ایک اور خوبی بھی دل موہ لیتی ہے کہ وہ مصنوعی آدمی نہیں۔۔۔۔۔وہ اتنے صاف گو ہیں کہ اردو اور انگریزی بھی سرائیکی لہجے میں بولتے ہیں۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ ٹیلن نیوز تنازع میں بھی کلاسرا صاحب کا سٹینڈ انتہائی جینوئن ہے۔۔ معاہدہ شکنی سے لیکر واجبات ترسیل کی سوشل میڈیا پر بے ہودہ تشہیر تک “جھگڑے” کا کھرا نجی ٹی وی کی سابق انتظامیہ کی طرف جاتا ہے۔۔ کلاسرا صاحب نے جو کچھ کیا اپنے دفاع میں کیا اور یہ ان کا بنیادی حق ہے۔۔۔میرے خیال میں جناب رئوف کلاسرا کا صحافیوں اور صحافتی اداروں سے شکوہ بھی بجا ہے کہ ہمیں کسی سرمایہ دار کا مورچہ سنبھالنے کے بجائے ہر صورت کارکن صحافی کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔۔۔۔۔بریار صاحب تو ٹھہرے بزنس کلاس آدمی۔۔ اب کے بچھڑے شاید خوابوں میں ہی ملیں لیکن ممکن ہے کہ کلاسرا صاحب کسی اگلے نازک موڑ پر بطور کارکن صحافی ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آزادی صحافت کے نعرے لگا رہے ہوں۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔