تحریر: کامران شیخ
پاکستان کاتعلیمی نظام اس وقت تاریخ کےمشکل ترین دور سے گذررہاہے،اعلی تعلیم کا حصول مشکل اورغریب طلباء کےلیے ناممکن بنتاجارہاہے۔۔وفاقی حکومت کی جانب سے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کےبعد ہائیرایجوکیشن کمیشن نے اسکے اثرات ملک بھرکی جامعات کو منتقل کردئیے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہےکہ سرکاری جامعات کوچلانےکےلیےنجی بینکوں سے قرضےلیےجانےلگےہیں،ایک ذرائع کےمطابق ایچ ای سی کی ایک اور نئی پالیسی سامنے آسکتی ہےکہ بی ایس سی،اور بی اے کو ختم کرکےایسوسی ایٹ ڈگری ((جو کہ محض ڈپلومے کے مساوی ہوگی)) دی جائے، اس صورتحال سےجن کالجوں کا جامعہ سےالحا ق ہےوہ ختم ہوسکتاہے۔۔
سندھ حکومت کی جانب سے فنڈزکےعدم اجراء کےباعث چار جامعات نے بینک سےکروڑوں روپےکے قرضے لے لیےہیں۔۔اس وقت ملک بھر اور بالخصوص جامعات کےانتظامی وتدریسی معاملات چلانےمیں شدیددشواریوں کاسامناہے نجی بینکوں سےقرضہ لینےوالی جامعات میں سندھ یونیورسٹی جامشورو،شاہ لطیف یونیور سٹی،قائد عوام یونیورسٹی اورزرعی یونیورسٹی شامل ہیں۔۔
جامعات کےاساتذہ کی مرکزی تنظیم فیڈریشن آف آل پاکستان اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) نےوفاقی حکومت اور ایچ ای سی کےاس عمل پر سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے جامعات میں تدریسی عمل کا بائیکاٹ کردیا ہے،یعنی سندھ چیپٹر کی جامعات میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی کلاس نہیں ہورہی، اس سے زیادہ تعلیم کامزیدنقصان اورکیا ہوسکتا ہے۔۔۔
حیدرآبادکی پہلی سرکاری جامعہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد کو اس وقت کالج کے فنڈزسے چلایا جارہاہےجامعہ کراچی جو کہ پہلے ہی مالی خسارے میں تھی اب مزیدمشکلات میں آچکی ہے کراچی یونیورسٹی کی گرانٹ دو ارب روپےاورمختلف ذرائع سےحاصل ہونیوالی آمدنی بھی تقریبادوارب روپےتھی جبکہ اخراجات ساڑھے پانچ ارب روپے ہیں یعنی جامعہ پہلےہی ڈیڑھ ارب روپےکےخسارےمیں تھی اور اس پرمتضادیہ کہ مزید کٹوتی ہونےسے22 کروڑ روپے مزیدکم ہوگئےہیں، ذرائع کاکہناہےکہ ایچ ای سی نے اس خسارےسےنکلنےکےلیےجامعا ت کومشورہ دیاہےکہ طلباء کی فیسوں میں اضافہ کردیا جائے اور کسی بھی قسم کاکوئی ترقیاتی کام شروع نہ کیاجائے۔۔۔
کہاں توحکومت وقت تعلیمی ایمرجنسی کانفاذ کرکےیہ کہا کرتی تھی کہ تعلیم ہماری اولین ترجیح ہےاب یہ اولین ترجیح اس اندازمیں سامنےآرہی ہےکہ اعلی تعلیم کاحصول عام نوجوان کی دسترس سے باہر ہوتاجارہاہے،
جامعات کابجٹ کم ہونےسے جہاں اساتذہ کی تنخواہوں پر اثر پڑرہاہےوہیں اسکے اثرات ریسرچ پربھی پڑرہےہیں صورتحال یہ ہےکہ تحقیقی کام بالکل صفر پر ہے، کیونکہ کیمیکلز، مٹیریل خریدنے تک کے پیسےبھی یونیورسٹیز کو دستیاب نہیں ہیں، صرف جامعہ کراچی کی ہی بات کی جائے تومختلف بلوں سمیت دیگر اشیاء کی خریداری تو درکنار صرف پانی کابل اس وقت ساڑھےسات کروڑ روپے تک جاپہنچاہےجوکہ جامعہ اداکرنے سےقاصرہے وفاقی حکومت نےاعلیٰ تعلیم کےبجٹ تقریبا میں 7 ارب روپےکمی کی ہے سندھ سمیت ملک بھر کی جامعات کےغیرترقیاتی بجٹ میں 10 فیصدسےزائدکمی کی گئی ہے لیکن دوسری جانب ایک حیرت انگیز بات یہ ہےکہ وزیراعظم پاکستان کی ٹاسک فورس برائے سائینس وٹیکنالوجی کو اربوں روپےبجٹ جاری کیاگیاہےجس نے صرف پانی بناکراپنی ذمہ داری مکمل کرلی، لیکن جامعات جوکہ بنیادی مراکزہیں تحقیق و تدریس کے انکابجٹ کم کردیا گیا،ایک اور قابل غوربات یہ ہےکہ پنجاب یونیورسٹی میں تقریبا32 ہزار سےزائدجبکہ کراچی یونیورسٹی میں 45 ہزارسےزائدطلباء و طالبات علم حاصل کررہےہیں لیکن اگربجٹ پرنظرڈالی جائے توجامعہ کراچی کی بجائے پنجاب یونیورسٹی کوزیادہ دیا جاتا ہے،
سوال یہ ہےکہ کیاتعلیم حکومتی ترجیحات کاحصہ ہیں؟؟
اگرہیں تو نامور تعلیمی اداروں کےساتھ ایساسلوک کیوں ؟؟
حکومتوں کی بہت سی ذمہ داریوں میں تعلیم بھی شامل ہے اس بات کاثبوت دینے کی اشد ضرورت ہے، تعلیمی نظام اس وقت حالت نزع میں ہے، چند روز قبل وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود جامعہ کراچی میں موجودبین الاقوامی ریسرچ سینٹربرائےحیاتیاتی و کیمیائی علوم کی ایک تقریب میں تشریف لائے اور بڑے فخر کااظہارکرتے ہوئےکہاکہ جامعہ کراچی کانام بہت سنا تھا لیکن آنےکااتفاق پہلی مرتبہ ہوا، موصوف جب جانےلگے تو انھیں روک کریہ سوال کیاگیاکہ جامعات کوتالےلگےہوئےہیں، ایچ ای سی نےبجٹ دس سے گیارہ فیصدکم کردیا ہےتو وزیر تعلیم نےگول مول ساجواب دیاکہ ایچ ای سی خود مختار ادارہ ہے، اور بجٹ کم کرنے کے معاملے پر نظرثانی کے لیے کہاگیاہے،۔۔
یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھےگا اس بات کاانتظارزورپکڑتاجارہاہے۔۔فی الحال تواساتذہ کی تنظیمیں جامعات میں تدریسی عمل کے بائیکاٹ کےبعدمزیدسخت فیصلے کرنےکاسوچ رہی ہیں۔۔(کامران شیخ)