تحریر: حامد میر۔۔
ہمارے ’’چاچا خواہ مخواہ‘‘ جناب نصرت جاوید نے اپنے کالم ’’برملا‘‘ میں کچھ صحافی دوستوں کے حالیہ دورہ برسلز کے بارے میں پھیلائے گئے خطرناک سازشی مفروضوں کا پردہ چاک کیا ہے۔جناب نصرت جاوید ہمارے ان سینئرز میں شامل ہیں جن کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تجربہ نصف صدی کو چھو رہا ہے لہٰذا انہوں نے ’’صحافی دوستوں کا دورہ برسلز‘‘ کے عنوان سے کالم خواہ مخواہ نہیں لکھا بلکہ مجھ سمیت ان آٹھ صحافیوں کو کسی بہت خوفناک منصوبے سے خبردار کیا ہے جس کی بھنک ان تک براہ راست پہنچی ہے۔
لکھتے ہیں کہ ’’موجودہ حکومت کے کئی سرکردہ افراد اور چند ریاستی اداروں میں موجود ان کے سرپرست یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ حال ہی میں برسلز مدعو کئے جانے والے صحافی پاکستان کے لئے مایوس کن خبریں پھیلانے کے لئے بطور آلہ کار استعمال ہوئے‘‘ آگے چل کر انہوں نے نواز شریف کے لندن میں حلقہ احباب میں شامل ایک صاحب کی طرف اشارہ کیا ہے جنہوں نے شستہ انگریزی میں لکھی گئی ایک ٹوئٹ کے ذریعہ یہ تاثر دیا کہ یورپی یونین تحریک انصاف کے ساتھ مل گئی ہے۔یہ صاحب 1996ء میں راولپنڈی میں تین افراد کے قتل کی ایف آئی آر میں نامزد ہونے کے بعد برطانیہ فرار ہو گئے تھے۔جن افراد کے ساتھ موصوف کی دشمنی ہے ان کا تعلق بھی مسلم لیگ (ن) سے ہے۔مقدمات بدستور زیر التواء ہیں اور یہ صاحب آج کل نواز شریف کے ساتھ ساتھ ’’تیسری قوت‘‘ کی ترجمانی کا تاثر دیکر صحافیوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔
ماضی قریب میں نواز شریف کو سزا سنانے والے ایک جج کی خفیہ ویڈیو ریکارڈکرنے کا الزام بھی ان صاحب پر لگایا گیا تھا لہٰذا جب انہوں نے برسلز جانے والے صحافیوں کے خلاف ٹوئٹ کی تو ہم نے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر سے پوچھا کہ اگر آپ کو صحافیوں کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے ایک اشتہاری کے سوا کوئی نہیں ملا تو آپکی حالت واقعی قابل رحم ہے ۔وفاقی وزیر نے موقف اختیار کیا کہ ان صاحب کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں اور وہ پارٹی کے ترجمان نہیں بلکہ آج کل کسی اور کا ترجمان بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہمیں اطلاع دی گئی کہ لندن پلٹ اشتہاری ملزم نے ہمارے خلاف ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی ہے لیکن اب ہم جناب نصرت جاوید کے کالم کا کیا کریں ؟ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ’’میری چند سرکاری افسروں سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی ۔وہ ہماری وزارتِ خارجہ سے رابطے میں رہتے ہیں وہ بھی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ برسلز میں پاکستانی صحافیوں کو مدعو کرنے کا کچھ تو ایسا مقصد تھا جس کی پردہ داری ہے ‘‘۔
جناب نصرت جاوید کے کالم نے سوشل میڈیا پر ایک بحث کو جنم دیا ہے لہٰذا یہ بتانا ضروری ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے برسلز کے مطالعاتی دورے میں سے کسی سازش کو تلاش کرنے والے ایک ایسا پہاڑ کھود رہے ہیں جس میں سے انہیں ایک مرے ہوئے چوہے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔میں اس قسم کے مطالعاتی دوروں پر امریکہ اور چین کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی جا چکا ہوں ۔عام طور پر اس قسم کے دوروں میں کوئی خبر نہیں ملتی لیکن برسلز کے دورے میں یورپی پارلیمینٹ کے سینئر رکن مائیکل گاہلر کے ساتھ گفتگو میں ہمیں ایک خبر مل گئی جسے نظرانداز کرنا مشکل تھا۔
خبر یہ تھی کہ مائیکل گاہلر نے بتایا کہ 2023ء میں اگر پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تو یورپی یونین اپنے مبصرین کا وفد نہیں بھیجے گی کیونکہ اسے ابھی تک وفد کیلئے دعوت نہیں ملی ۔مائیکل گاہلر کا تعلق جرمنی سے ہے۔وہ 2008۔2013ء اور 2018ء کے انتخابات کے دوران پاکستان کیلئے یورپی یونین کے آبزرویشن مشن کی قیادت کر چکے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ 2018ء کے انتخابات بہت متنازع تھے اور عمران خان کو دھاندلی کے ذریعے وزیر اعظم بنوایاگیا تاہم انہوں نے آئندہ انتخابات کی شفافیت پر بھی سوال اٹھائے۔
میں نے پوچھا کہ اگر اگست میں نئے انتخابات کا اعلان ہو گیا اور اکتوبر یا نومبر میں انتخابات ہوگئے تو آپ کا آبزرویشن مشن آئے گا یا نہیں؟انہوں نے آبزرویشن مشن بھیجنے کے طریقہ کار کی وضاحت کی اور بتایا کہ مشن کیلئے ارکان پارلیمینٹ کا انتخاب، پھر ان کے ویزے اورسفر کے انتظامات کیلئے کم از کم تین چار ماہ درکار ہوتے ہیں۔انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ ہمیں ویزے جاری کرنے میں بھی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں لہٰذا اگر اس سال انتخابات کا اعلان ہو بھی گیا تو ہمارا آبزرویشن مشن پاکستان نہیں آ سکے گا البتہ ایک چھوٹا سا ایکسپرٹ مشن آ سکتا ہے جس میں ارکانِ پارلیمینٹ شامل نہیں ہونگے ۔
یہ گفتگو آن دی ریکارڈ تھی لہٰذا جب ہم نے یہ گفتگو رپورٹ کی تو ایک لندن پلٹ اشتہاری ملزم کے ذریعے ہمیں دھمکیاں دلوائی گئیں اور مائیکل گاہلر کو پاکستان کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔اس دورے میں ہمیں یورپی پارلیمینٹ کی ایک خاتون رکن ہیدی ہوتالہ نے بتایا کہ یورپی کونسل (یورپی ممالک کے سربراہان پر مشتمل ادارہ) جی ایس پی پلس کے تحت سہولتوں سے فائدہ اٹھانے والے ممالک پر یہ شرط لاگو کرنا چاہتا ہے کہ یورپی ممالک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو پکڑ کر ان کے وطن واپس بھیجا جائے تو وہ انہیں قبول کرنے کے پابند ہونگے لیکن یورپی پارلیمینٹ اس شرط کو تسلیم نہیں کر رہی لہٰذا نیا قانون التواء کا شکار ہے اور پاکستان سمیت نو ممالک کیلئے جی ایس پی پلس کی حیثیت میں فی الحال توسیع کی جا رہی ہے ۔
ہماری برسلز میں موجودگی کے دوران جی ایس پی پلس میں توسیع کا اعلان بھی کر دیا گیا لیکن اس پر کسی نے یورپی یونین کا شکریہ ادا نہیں کیا کیونکہ جی ایس پی پلس کے متعلق نیا مجوزہ قانون پاکستان سمیت دیگر نوممالک کو ایک پلان آف ایکشن بنانے کا پابند بنائے گا جس کے تحت انہیں ناصرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنی ہونگی بلکہ یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن کا داخلہ بند کرنے کیلئے اقدامات بھی کرنے ہونگے ۔یورپی یونین کے مختلف اداروں کے اہم ذمہ داروں سے گفتگو کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ پچھلے سال سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو برسلز میں بڑے واضح الفاظ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر آپ نے مارشل لاء لگایا تو یورپی یونین کی طرف سے پابندیوں کیلئے تیار رہیں کیونکہ امریکہ تو پاکستان میں ڈکٹیٹروں کو نظرانداز کر سکتا ہے لیکن یورپی یونین کسی ڈکٹیٹر کو نظرانداز نہیں کریگی۔
ہمیں بتایا گیا کہ یورپی یونین میں شامل 27ممالک ہر سال پاکستان کو بھاری امداد اور امپورٹ ڈیوٹی میں سہولتیں دیتے ہیں جن کا مقصد پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا تحفظ ہے اگر جمہوریت محفوظ نہیں رہے گی تو امداد دینے والے اداروں کو پارلیمینٹ میں جواب دینا ہوتا ہے ۔یہ وہ باتیں تھیں جن کا پاکستانی صحافیوں تک پہنچنا کسی سازش سے کم نہ تھا۔ گزارش ہے کہ آپ جمہوریت کے خلاف سازشیں بند کر دیں تو ہم جیسے صحافی آپ کو سازشی نظر نہیں آئیں گے۔(بشکریہ جنگ)