گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے صحافت کے شعبے کی اہمیت اور اس کے ملک کی جمہوری ترقی میں کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے قیام اور تسلسل میں صحافی برادری کا اہم کردار ہے۔ آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی یونین آف جرنلسٹس ورکرز، ایپنک کے وفد اور چیئرمین امپلی منٹیشن ٹریبونل نیوز پیپرز ایمپلائز (آئی ٹی این ای) شاہد محمود کھوکھر سے گورنر ہائوس میں ملاقات کے دوران کیا۔وفد میں کراچی یونین آف جرنلسٹ (ورکرز) کے صدر شکیل یامین کانگا،جنرل سیکرٹری سید صابر علی، سینئر نائب صدر کامران زہری، سیکرٹری جنرل ایپنک دارا ظفر، سینئر نائب صدر ایپنک رانا یوسف، سعید محی الدین پاشا، سلیم اللہ صدیقی اور جہانگیر حسین بھی موجود تھے۔ ملاقات کے دوران صحافتی برادری اور میڈیا وکرزکے مسائل اور ان کی فلاح و بہبود پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ گورنر سندھ نے مزید کہا کہ وہ صحافتی اداروں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھا رہے ہیں اور صحافیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے مسلسل رابطہ میں ہیں۔ گورنر سندھ نے کہا کہ “صحافت سے وابستہ ہر فرد کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ چیئرمین آئی ٹی این ای نے گورنر سندھ سے اخبارات کے ملازمین کو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم سے کم اجرت پر عمل درآمد کرنے کے ضمن میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی جس پر گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اخباری مالکان سے کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے جلد بات کریں گے تاکہ صحافیوں اور اخبار کے دیگر ملازمین کو ان کے حقوق مل سکیں۔ آئی ٹی این ای کے چیئرمین شاہد محمود کھوکھر نے گورنر سندھ کو امپلی منٹیشن ٹریبونل نیوز پیپرز ایمپلائز کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ ٹریبونل کا قیام 1975ءمیں عمل میں لایا گیا تھا اور اس کا مقصد اخبار کے ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ چیئرمین کا چارج سنبھالنے کے بعد، ٹریبونل نے 250 سے زائد زیر التواء امپلی منٹیشن پٹیشنز پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے اخبار کے ملازمین کو واجب الادا 60 کروڑ روپے کی فراہمی ممکن بنائی۔ شاہد محمود کھوکھر نے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی زیر سرپرستی جاری انیشیٹیوز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جاری منصوبے انتہائی شاندار ہیں اور ان کی مثال پورے پاکستان میں نہیں ملتی۔