تحریر: عبدالقادر حسن
سیاستدانوں کی زندگی کسی ایسی سیاسی سرگرمی کا نام ہے جسے ان کی پارٹی یا میڈیا قبول کر لے اور اسے آگے بڑھانے میں مدد کرے۔ سیاستدان نا م ہے چند کارکنوں اور میڈیا کے کار پردازوں کی سرگرمی کا جو کسی سیاستدان کو زندہ رکھتے ہیں، ان کی سرگرم مدد کے بغیر کوئی سیاستدان آگے نہیں بڑھ سکتا، پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ سیاست کی دنیا میں اب ایسے لوگوں کا ہجوم ہے جو کسی سیاستدان کو اٹھاتے اور زندہ رکھتے ہیں۔ ان کی مدد سے ہی کوئی سیاستدان سیاست میں عمل دخل بڑھا سکتا ہے۔
اب پبلک جلسوں کا زمانہ ختم ہوتا جا رہا ہے، یہ بہت مہنگے پڑتے ہیں اور ایک جلسہ ہزاروں نہیں لاکھوں کے اخراجات کا طلبگار ہوتا ہے۔ اب تو لاہور کے موچی دروازے میں بھی اگر جلسہ کیا جائے تو وہ بھی کئی لاکھوں میں پڑتا ہے۔ عوامی جلسوں کے یہ لاکھوں غریب کارکنوںکی جیب سے نکلتے ہیں کیونکہ لیڈر حضرات تو صرف تقریر کرتے ہیں اور تقریر کے لیے گھر سے کسی جلسہ گاہ تک کسی کارکن کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور اسے اس کارکن کی حوصلہ افزائی سمجھا جاتا ہے، بلکہ دیکھا تو یہ بھی گیا ہے کہ کارکن کے پاس اپنی گاڑی تو نہیں تھی اور اسے کسی گاڑی والے ساتھی کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔گاڑی والے کو یہ بھی دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ جلسے میں اگر ہنگامہ ہو گیا تو اس کی پہلی ضرب گاڑی پڑے گی اور جلسہ میں سرگرم کارکنوں کو اگر معلوم ہو کہ ان کے مخالف کی گاڑی بھی موجود ہے تو پھر اس گاڑی کے حصے میں کسی سیاسی جلسے کی اینٹ پتھر وافر نصیب ہوتا ہے۔ خود میں بھی ایک ایسے ہی حادثے کا شکار ہو چکا ہوں جس کا ذکر کبھی تفصیل سے کسی کالم میں کروں گا۔
یہ بیرون موچی دروازے کا ایک حادثہ ہے جس میں میری پرانی گاڑی بہت زیادہ زخمی ہوئی تھی اور میں بھی اس وقت اس گاڑی میں بیٹھا گانے سن رہا تھا کہ ایک گولہ میرے سامنے گرا اورپھٹ گیا، تفصیل پھر کبھی سہی بہرحال سیاسی جلسے سیاستدانوں کی زندگی بناتے ہیں توا ن کے کارکنوں سے اس کی قیمت بھی وصول کرتے ہیں۔ موچی دروازے کی مشہور جلسہ گاہ ایک تھانے کی پشت پر تھی اور اس جلسہ گاہ میں جو ہنگامہ برپا ہوتاتو وہ تھانے کے حصے میں بھی آتا جہاں سے سیاستدانوں اور ہمارے جیسے جلسوں کی رپورٹنگ کرنے والے بھی اپنا حصہ وصول کرتے۔سیاسی زندگی کا یہ بھی ایک پہلو تھا جو سیاسی سرگرمیوں کے دور میں سامنے آتا تھا۔ ہر مہینے میں زیادہ نہیں تو دو تین جلسے ضرور منعقد ہوتے تھے جس میں کارکنوں کے ساتھ ساتھ جلسہ کی رپورٹ تیار کرنے والے صحافیوں کو بھی حصہ مل جاتا ان کی میز کرسی اینٹوں کے روڑوں سے بھر جاتی اور کچھ رپورٹروں کے حصے میں بھی آ جاتے۔ مجھے خود ایک بڑا حصہ مل چکا ہے جس کا گلہ شکوہ نہیں ہے بس ڈیوٹی کاایک حصہ تھا جو میں نے بخوشی قبول کر لیا تھا، جس کے نشان بھی اب تک میرے جسم پر باقی ہیں۔
بہرکیف عشق و عاشقی میں سب چلتا ہے۔ جب رپورٹنگ خطرناک جلسوں کی ہو تو پھر یہ سزا تو ہوتی ہی ہے اور ایک رپورٹر اسے بخوشی تسلیم کرتا ہے جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)