likhne walo ke masail | Hammad Raza

جعلی صحافی ۔۔

تحریر: چودھری حماد رضا

آج یونہی سوشل میڈیا پر ایک اشتہار پر نظر پڑ ی اشتہار وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا اور اس میں یہ تنبیہ کی گئ تھی کہ جعلی صحافی ہوشیار ہو جائیں، جعلی صحافیوں اور جعلی کارڈ بنانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا اس کے ساتھ ساتھ پریس کلبز پر بھی کڑی نظر رکھی جائے گی اور سرکاری محکموں کے ملازمین پر بھی صحافت کرنے پر پابندی عائد ہو گی یہ تمام باتیں اس اشتہار کے بنیادی نکات میں شامل تھیں اشتہار پڑھنے کے بعد میرے دماغ میں سوالات کا ایک طوفان برپا ہو گیا اور اسی طوفان کے اُکسانے پر میں یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوا پہلا سوال جو میرے ذہن میں وارد ہوا وہ یہ تھا کہ آخر جعلی صحافی کہتے کسے ہیں؟ کون سا ایسا پیمانہ ہے جو صحافی کو اصلی اور جعلی ثابت کرتا ہے صحافت جسے ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے جو پیشہ معاشرے کی کان اور آنکھیں ہیں جس کا کام معاشرے کو صیح سمت میں گامزن کرنا ہوتا ہے صحافت ایک باقاعدہ پیشہ ہے جس کی باقاعدہ تعلیم پی ایچ ڈی تک دی جاتی ہے ایک جرنلزم یا ابلاغیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر کو ماہر ابلاغیات تصور کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک وکیل وکالت کا امتحان پاس کر کے وکیل بنتا ہے جس طرح اخبارات کی ڈکلریشن کے لیے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح صحافت کرنے والے کے لیے بھی کوئ میکنزم بنانے کی ضرورت ہے سوشل میڈیا نے جہاں فاصلوں کو محدود کیا ہے وہاں جعلی صحافت کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اب ہر بندہ خود ہی ایک پریس کارڈ بنواتا ہے خود ہی اپنا لوگو چھپواتا ہے اور گھر بیٹھے بٹھاۓ صحافی بن جاتا ہے اور اس قسم کے صحافی سے اگر سوال کیا جائے کہ خبر اور کالم میں کیا فرق ہوتا ہے تو آپ کو یہ جوا ب سننے کو مل سکتا ہے کہ خبر وہ ہوتی ہے جو اخبار کے باہر چھپتی ہے اور کالم وہ ہوتا ہے جو اخبار کے اندر چھپتا ہے خیر چھوڑیں اس بات کو حکومت کو چاہیے کے وہ اشتہارات سے نکل کر صحافت کے لیے عملی اقدامات کرے اور یا تو پیمرا کو چاہیے ان تمام ویب چینلز کا صفایا کیا جائے یا ان کو رجسٹرڈ کر لیا جائے تا کہ انھیں اشتہارات بھی ملیں اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں .(چودھری حمادرضا)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں