تحریر: ابن شریف
صحافی اورمیڈیا ورکرزکے حالات آئیڈیل نہیں توبدتربھی نہ تھے،دن یوں ہی گزررہے تھے،نوکری یوں ہی چل رہی تھی ،تنخواہیں بھی دیر سویر مل ہی جاتی تھیں،کبھی کبھی تنخواہوں کا بحران جنم لیتا اورپھروہ دن بھی گزرجاتے،سب صبروشکرسے زندگی جی رہے تھے،لیٹ تنخواہوں کا رونا کوئی نئی بات نہ تھی کہ دوہزارپندرہ آیا،میڈیا کے شہرمیں ایک انقلاب کی لہر اٹھی، تبدیلی کا نعرہ بلند ہوا،لائف اسٹائل بدل دینے کی ہواچلی،لگژری گاڑی،ڈورٹو ڈورپک اینڈ ڈراپ ،جم کی سہولت ،فائیواسٹار کیفے ، اورہزاروں نوکریوں کے خواب دکھائے گئے۔
میڈیا میں مسابقت اورمناقشت کوئی نئی بات نہ تھی،ہرنیا چینل اپنے آپ کو پہلوں سے برترثابت کرنے اورآگے بڑھنے کی خوب جتن کرتا ہے، بسااوقات ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچی جاتی ہیں ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ نئے چینل آنے سے ورکرزکے لیے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ،یہی وجہ تھی جب دوہزار پندرہ میں بول کا جادو چلاتو ہزاروں میڈیا ورکرزنے اپنے اپنے اداروںکو خیرباد کہا،پکی نوکریاں چھوڑیں اور بول کی جانب کوچ کیا۔ لیکن بول کے بولنے سے پہلے ہی ایگزیکٹ اسکینڈل سامنے آیا ،جہاںسازشوں کے تانے بانے کامیاب ہوئے وہیں ناتجربہ کاری اورنان پروفیشنل ازم کے باعث بول آن ایئر نہ ہوسکا،جب سیکڑوںلوگوں کی نوکریاں داو پرلگ گئیں تو پیٹ کی خاطرورکرز پنچھیوں کی طرح ادھر ادھر اڑ گئے،یہ برا وقت بھی گزرگیا۔ اور بالآخر کافی کوششوں اورجدوجہد کے بعد بول آن ایئرہوا،رونقیں بحال ہوئیں، روزگارکے مواقع پھر پیدا ہوئے،بحران کے دنوں کی پانچ پانچ ماہ کی رکی سیلریاں ملنے کی امید بھی پیدا ہوئی،جوں جوں بول کی نشریات کا بول بالا ہوا،معروف چہرے دوبارہ اِن ہوئے،اسی طرح بول کے دعوے بھی پہلے سے بھی زیادہ“ کے پرکشش نعروں میں بدل گئے۔،بول نے اردوکے ساتھ ،انگریزی،سندھی،پشتو ، بلوچی، سرائیکی، چینی،اوردیگرغیرملکی زبانوں میں بھی ڈبنگ کے ذریعے نشریات کا اعلان کیا،سیکڑوں نوجوانوں کو بھرتی کیاگیا،،لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ نعرے سراب ثابت ہوئے، پرانے ورکرزکو بقایاجات نہیں دیے گئے اور نئے ورکرزسے کام پہلے سے بھی زیادہ لیے گئے۔پھراچانک درجنوں ڈیپارٹمنٹ بند کرکے سیکڑوں لوگوں کو بیروزگار کردیا گیا، سیکڑوں نوجوانوں کو بے سروپا تجربے کی بھینٹ چڑھادیا گیا، اورطرفہ تماشا یہ کہ ورکرزکی لاعلمی میںان سے ا ستعفے خود ہی پورٹل کے ذریعے لے لیے گئے۔اوریوں جعلی ڈگریوں کی طرح بول کی تبدیلی کا نعرہ بھی جعلی ثابت ہوا۔متعدد ورکرز تاحال دس دس ماہ کی سیلری سے محروم ہیں،سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے باوجود میڈیا ورکرزکودوسال بعد بھی تنخواہیں نہ مل سکیں،ملک میں تبدیلی کے نام پرنئی حکومت آئی تومیڈیا کے کارکن بھی خوش ہوئے کہ شایدان کے حالات بھی تبدیل ہوں گے۔میڈیا ورکرزکی زندگی میں تبدیلی تو آئی لیکن یہ تبدیلی بھی جعلی ثابت ہوئی، اخبارات نیم جاں ہوئے،کئی معروف اخبار بند ہوئے ، سیکڑوں ورکرزکے چولہے ٹھنڈے ہوگئے،بول نے ڈاون سازنگ کی جو ابتدا کی تھی،تبدیلی سرکار میں اسے عروج ملا،پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اجتماعی ڈاون سازنگ شروع ہوئی،بول ،سما،جیو،آج،ایکسپریس اورکئی بڑے ٹی وی چینلزسے ورکرزکی برطرفی جاری ہے،میڈیا میں بے یقینی کے بادل چھائے ہیں،تبدیلی سرکار اس تبدیلی پرخوش ہے،اورمیڈیا ورکرز ہ ہیں جو اس جعلی تبدیلی کے زخم چاٹنے پرمجبور ہیں۔(ابن شریف۔۔)