تحریر: امجد عثمانی۔۔
لاہور کے نیک نام صحافی جناب جہانگیر حیات اور ان کی فیملی سے اچھرہ پولیس کی” مبینہ بدسلوکی” کی خبر سنی تو افسوس ہوا کہ” قلم مزدور”اب بیوی بچوں کے سامنے بے عزت ہونے لگے ہیں …..کاش کئی ایک صحافتی تنظیموں،ایسوسی ایشنز اور فورمز کا کوئی ایک لیڈر ہی پریس کلب کے باہر احتجاج کرکے کمیونٹی کی لاج رکھ لیتا۔۔
جہانگیر حیات سے میری صرف اتنی شناسائی ہے کہ وہ اپنے عہد کے بڑے اخبار نویس جناب راجہ اورنگزیب کی لاہور پریس کلب میں سجنے والی خوب صورت مجلس میں کبھی کبھار ملتے…..وہ کم گو اور مودب آدمی ہیں…..میں نے انہیں سنئیرز کے سامنے ہمیشہ سرجھکائے ادب سے بیٹھے دیکھا ہے..اور آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔۔
جہانگیر حیات کے بجائے ہوٹل،ہائوسنگ سوسائٹی یا کسی اور کاروبار سے منسلک کوئی” جبری صحافی” یا لاہور پریس کلب میں” گھس بیٹھیا کونسل ممبر” ہوتا تو کئی قد آور مینجر نما لیڈرز کی” رگ غیرت” پھڑک اٹھتی اور وہ چشم زدن سب کچھ مینج کرکے صحافت پر حملہ ناکام بنا چکے ہوتے۔۔
بردارم خاور عباس نے درست فرمایا کہ کدھر گئے وہ بڑے بڑے رپورٹر جو پولیس افسروں کے ساتھ” خصوصی مراسم” جتا کر سیلفیاں بناتے نہیں تھکتے….لیکن وہی بات کہ کسی شریف صحافی سے بد اخلاقی کون سا مسئلہ ہے….ویسے بھی پولیس کا اخلاق سے کیا لینا دینا اور صحافتی قائدین کو صرف اپنے خوشامدی پیارے ہیں..اور…جہانگیر حیات کون سے درباری یا کاروباری صحافی ہیں؟؟؟؟؟(امجد عثمانی)۔۔