“جہان پاکستان” کا المیہ یہ ہے کہ یہ ادارہ بدیشی طاقتوں اور بیرونی حملہ آوروں کی لوٹ مار کا شکار رہا ۔ اسے بڑی سرمایہ کاری سے شروع کیا گیا تھا ۔ مارکیٹ سے بڑے نام اٹھائے گئے ، کئی گنا زیادہ تنخواہیں دی گئیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اچھے برے ہر طرح کے حالات میں ورکرز کو بروقت اور مکمل تنخواہ دی گئی۔ اس ادارے کے مالکان کو چند بڑے صحافیوں نے دیگر اداروں کے ایما پر جس طرح لوٹا اس کی کہانیاں ابھی تک مارکیٹ میں گردش کرتی ہیں ۔ مارکٹینگ کے نام پر اپنے اکاؤنٹس بھرے جاتے رہے ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے ادارہ ایک بار پھر کسی اور ادارے کے پےرول پر کام کرنے والے مشیروں کی زد میں ہے ۔ چیف رپورٹر ایک فون کال پر برطرف ہو چکا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق عید کے بعد بڑے پیمانے پر ملازمین نکالے جانے کی تیاریاں چل رہی ہیں ۔ یہ تعداد سو سے بھی تجاوز کرتی نظر آ رہی ہے ۔ ادارے کے پاس ایک سے زیادہ ٹی وی لائسنس ہیں لیکن پلاننگ ری سایزنگ کی ہو رہی ہے ۔ بتایا جا رہا ہے کہ ڈاؤن سایزنگ کے بعد اخبار کو چار صفحات تک لایا جائے گا اور پھر اسے ای اخبار کی سمت لیجایا جائے گا ۔ ادارے کا دفتر بھی تبدیل کیا جائے گا ۔ جہاں پاکستان کے مالکان بڑے سرمایہ کار ہیں ، ان کے کئی کامیاب بزنس ہیں ، پاکستان ہی نہیں یوگنڈا میں بھی میڈیکل کالج قائم کر چکے ہیں لیکن میڈیا ہاؤس کےمعاملے میں مار کھا جاتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان دنوں ان کا مشیر خاص کون ہے لیکن انہیں شاید یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ میڈیا میں جب کوئی ادارہ ملازمین کو نکالنے لگے تو اس کی اہمیت ختم ہونے لگتی ہے ۔ کئی ادارے دوبارہ کبھی اپنی پہلی پوزیشن پر نہیں آ پاتے ۔ دوسری جانب ادارہ بڑی تعداد میں ورکرز کو نکالنے کے لیے لسٹیں مرتب کر رہا ہے لیکن ابھی تک کوئی صحافی تنظیم اس حوالے سے متحرک نہیں ہوئی ۔ یہ ادارے ہمارے اپنے ہیں ، انہیں تباہی سے بچانا ہمارا فرض ہے لیکن مالکان کے ساتھ ساتھ یہاں کام کرنے والے ورکرز بھی تو ہمارے اپنے ساتھی ہیں ، ان کی جاب سکیورٹی کو یقینی بنانا بھی ہمارا فرض ہے ۔ خاص طور پر صحافی راہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے (سید بدر سعید )
جہان پاکستان اخبار میں ہوکیارہا ہے؟؟
Facebook Comments