تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
پاکستان میں جدید میگزین جرنلزم کے بانی، صحافتی میسج کنسٹرکشن کے ماہر، قومی صحافت میں کوالٹی کنٹرول اور ایمپلائر-ایمپلائز ریلیشنز کے رول ماڈل اللہ کو پیار ےہو گئے۔ انا للہ وانا الیہٖ راجعون۔
جنگ گروپ کے چیئرمین اور پبلشر نے ایسے وقت میں دنیا سے کوچ کیا جبکہ ان کے والد میر خلیل الرحمٰن کا بنایا پاکستان کا سب سے بڑا صحافتی ادارہ بڑے کڑے وقت سے گزر رہا ہے، جسے میر جاوید رحمٰن اور ان کے چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمٰن نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد کی دی گئی تربیت اور اپنی شخصی صلاحیتوں سے سینچا اور اپنے والد کے انتقال کے بعد اس میں الیکٹرونک میڈیا (جیو ٹی وی) کے اضافے سے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔
قیامِ پاکستان کے تاریخ ساز کردار میں ہندوستان کی مسلم صحافت کا کردار تو پارٹیشن آف انڈیا کے چار بڑے اجزائے ترکیبی میں سے ایک اور ناگزیر ثابت ہوا لیکن قیامِ مملکت کے بعد نوزائیدہ و نحیف مملکت کو سنبھالنے اور چلانے میں پاکستانی میڈیا کا ارتقا، اس کا بڑھتا کردار بھی ترقی پذیر دنیا میں مثالی اور میڈیا اسکالرز اور ابلاغیات کے طلبہ کیلئے ایک بہت اہم کیس اسٹڈی ہے۔
بلاشبہ پاکستان میں قومی صحافت کو اسلامی جمہوری مملکت کے ستون کے طور پر تعمیر کرنے میں جنگ گروپ کا کردار مثالی اور بےحد نتیجہ خیز ہے اور اس میں پاکستان کی اس میڈیا فیملی کی خدمات کو قومی اور ہماری صحافتی تاریخ کسی طور نظر انداز نہ کر سکے گی۔میڈیا انڈسٹری کو انڈسٹری کے درجے پر لانے اور قومی صحافت کو اختراعات سے نوازنے میں میرخلیل ،میرشکیل اور میرجاوید رحمن نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے جو وسیع میڈیا سیکٹر میں بہت واضح ہے۔
پاکستان کی قومی صحافت ’’اخبارِ جہاں‘‘ جیسے انٹرنیشنل سرکولیشن کے حامل میگزین میگ جیسے پاکستانی انگلش اورینٹڈ ریڈر شپ اور کراچی کے اربن کلچر کی نمایاں جھلک لئے انگریزی کا شامیہ اخبار دی نیوز اور قومی سطح کا دی نیوز انٹرنیشنل، کے بغیر ادھوری ہوگی۔
میر جاوید رحمٰن، میگزین جرنلزم کو نئی نئی جدتوں سے آراستہ کرنے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ میں اپنے کتنے بیرونِ ملک آباد فیملی فرینڈز اور امریکہ میں گزارے دو سال میں یہ مشاہدہ خود کرتا رہا کہ بیرونِ ملک آباد پاکستانی فیملیز کی خواتین ’’اخبارِ جہاں‘‘ کو نہ چھوڑ پائیں اور وہ میر جاوید رحمٰن کے اس شاہکار اردو میگزین کا بےچینی سے انتظار کرتیں اور مرد حضرات کی دلچسپی بھی کوئی کم نہ ہوتی۔
پاکستان میں رہتے ہوئے مجھے کتنے سمندر پار پاکستانی دوست خاندان مسلسل ’’اخبارِ جہاں‘‘ کا فون نمبر اور ڈاک سے منگوانے کے بارے میں معلومات لیتے رہے۔ گویا ’’اخبارِ جہاں‘‘ پاکستانی خاندانوں کو دیارِ غیر میں رہتے ہوئے پاکستانی ثقافت اور لائف اسٹائل سے مسلسل جوڑے رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ بنا، یوں یہ نام کا نہیں حقیقتاً اخبارِ جہاں ثابت ہوا۔خصوصاً پاکستانی خواتین تو اس کی ہمیشہ دلدادہ رہیں، حالانکہ یہ کوئی خواتین کا مخصوص جریدہ نہیں لیکن میر جاوید رحمٰن خواتین کے سماجی رتبے اور معاشرے میں ان کے کردار اور مقام کو بڑھانے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔
اسی کے پیشِ نظر انہوں نے اخبارِ جہاں کی ایجنڈا سیٹنگ بھی کی۔ وہ موثر ابلاغ کے سکہ بند اصول RECEIVER ORIENTED MESSAGE CONSTRUCTION (قارئین کی ضرورتوں کے مطابق پیغام سازی) پر بڑی دسترس رکھتے اور اس میں PICTORIAL COVERAGE کو بہت اہمیت دیتے خصوصاً ٹائٹل ڈیزائننگ پر ان کی کڑی نظر ہوتی اور اس کی کوالٹی کو مسلسل بڑھانے پر یقین رکھتے۔اپنی شخصیت کے اعتبار سے میر جاوید رحمٰن دوستی و تعلق کا پیکر اور سماجی تعلق کو بہت اہمیت دینے والے ایسے ’’میڈیا لارڈ‘‘ تھے جس میں اس طاقت ور سماجی مرتبے کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی تھی۔
وہ ’’احترامِ آدمیت‘‘ کو صرف سمجھنے اور اس پر بات کرنے والے نہیں بلکہ ان کی شخصیت اور ہر طرح کے لوگوں سے تعلق اور وقتی ابلاغ میں ان کی شخصیت کا یہ قابلِ قدر پہلو فوراً ہی عود آتا۔ اپنی سادگی، نرم گوئی اور قدرِ آدمیت کے باعث وہ اپنی شخصیت کا واضح مثبت تاثر چھوڑنے والے ایک خوبصورت اور باوقار انسان تھے۔
ان کا انتقال ایک ایسے وقت میں ہوا، جب جنگ گروپ اپنی 80سالہ تاریخ کے بڑے کڑے وقت سے گزر رہا ہے۔ وہ خود پھیپھڑوں کے کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے، ان کے چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمٰن، ’’احتسابی عمل‘‘ میں مصروفِ عمل، تیزی سے متنازع ہوتے ’’نیب‘‘ کے غیرقانونی ایکشن کے نتیجے میں اس کے زیر حراست ہیں۔جس کے باعث ان کی والدہ اور اہلِ خانہ پر شدید دبائو کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، پھر میڈیا، گورنمنٹ ریلیشنز بہت ہی حساس صورتحال میں بگڑے ہوئے اور پورے میڈیا سیکٹر کے کیا مالکان اور کیا مجھ سمیت غمِ روزگار (کی بےروزی) میں مبتلا ہزارہا ملازمین کیلئے تشویشناک ہیں۔ لیکن قومی صحافت نہ مرے گی نہ اس طرح تابع محمل بن کر آمریت کو راستہ دے گی۔
ہمارے میڈیا سیکٹر میں میر جاوید جیسے شرفا، سچے کھرے پاکستانیوں نے اپنی محنت، صلاحیت، اپنے علاوہ حصولات برائے قوم و ملک جو راہیں میڈیا کی ترقی و فروغ کی نکالیں، وہ بند نہ ہو سکیں گی۔ یہ معاملہ شخصیات، خاندان، مالکوں اور ملازمین کا نہیں، بلکہ اِن سب کے کردار اور اس کے وطنِ عزیز کیلئے کلیت میں حاصل کا ہے۔ یہ وقت قومی یکجہتی اور چند ہی قومی اہداف پر فوکس کا ہے۔جس میں ’’میڈیا کی اصلاح‘‘ کی مہم جوئی ملک و قوم کے لئے مہلک ہو گی۔ باقی میر فیملی ہی کیا، ہر بندے نے اپنا اپنا حساب اللہ کو دینا ہے، یہ وقت حاصلِ اسباب پر نہیں، اللہ کی رضا پر یقین و ایمان کا ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔