تحریر : وریشہ مسعود
غلامی صرف ایک تاریخی استحصال نہیں ہے. دور حاضر میں آج بھی انسان غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے۔ مہذب معاشروں میں غلامی کو حقیر نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں غلامی کے قدیم تصور کا خاتمہ ہو چکا اور عالمی طور پر انسانی حقوق کی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں۔ عالمی قانون کے مطابق دنیا کے ہر حصے میں رہنے والے شہری کے بنیادی حقوق ہیں مثلا آزادی اظہار، املاک رکھنے کی آزادی، کاروبار کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی وغیرہ۔ مگر جہاں انسان قدیم روایات اور غلامی کی پرانی روش سے باہر آچکا ہے وہی انسان نے غلامی کے نئے اسلوب مرتب کر لئے ہیں۔ جس طریقے سے انسان ترقی کرتے ہوئے مریخ تک جا پہنچا اسی طرح سے انسان نے خود انسانی فکر، رویوں، صلاحیتوں پر غلامی کی جدید قدغن لگانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ہر سال 2 دسمبر کو غلامی کے خاتمے کے لئے بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔ جدید غلامی کے اس تصور کو سمجھنے کےلئے ضروری ہے ہم اس کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کے اثرات سے واقف ہوں تاکہ مستقبل قریب میں اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کی جاسکے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے مطابق دنیا بھر میں 40 ملین سے زائد افراد جدید غلامی کے شکار ہیں. اگرچہ جدید غلامی قانون میں بیان نہیں کی گئی ہے، بلکہ اسے اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ مجبور مزدور، قرض کے پابند افراد، جبری شادی، اور انسانی اسمگلنگ میں استعمال ہونا. لازمی طور پر، یہ استحصال کی صورتیں ہیں کہ کسی شخص کو خطرات، تشدد، زبردستی، دھوکہ دہی، اور جبر و طاقت کی وجہ سے استعمال کیا جائے۔
اس کے علاوہ، 150 ملین سے زائد بچے کی محنت و مزدوری کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں تقریبا ہر دس بچوں میں سے ایک بچہ مزدوری کرتا ہے۔ ایک اندازہ لگایا گیا ہے کہ 40.3 ملین لوگ جدید غلامی میں ہیں، بشمول 24.9 پر مجبور مزدور اور 15.4 ملین جبری شادی میں شامل ہیں. ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1000 لوگوں میں سے 5.4 ایسے ہیں جو کہ جدید غلامی کے شکار ہیں جبکہ جدید غلامی میں شامل ہر 4 متاثرین میں سے 1 بچے ہیں. جبری مزدوروں میں پھنسے 24.9 ملین افراد میں سے، نجی شعبے میں 16 ملین افراد کا استحصال کیا جاتا ہے جیسے گھریلو کام، تعمیر یا زراعت جبکہ سرکاری حکام کے زیر اثر جبری جنسی استحصال میں 4.8 ملین افراد اور جبری مزدوری میں 4 ملین افراد شامل ہیں۔ خواتین اور لڑکیاں بھی اس ضمن میں غیر متناسب اور غیر قانونی طور پر جبری مزدوری اور جدید غلامی کا شکار ہیں۔ ان میں تجارتی جنس انڈسٹری میں 99 فیصد خواتین شکار ہیں تاہم دیگر شعبوں میں 58 فیصد شامل ہیں۔اس جدید غلامی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی اور اس کے خاتمے کیلئے آئی او او نے قوانین مرتب کئے ہیں اور عالمی کوششوں کو مضبوط کرنے کے لئے پالیسی کا اجراء بھی کیا جس کے نتیجہ میں ایک قانونی طور پر پابند پروٹوکول اپنایا گیا ہے۔ اسے نومبر 2016 میں نافذ کیا گیا جس کا اطلاق اقوام متحدہ کے ممبر ممالک پر ہوگا۔اس جدید غلامی کے تصور کے تردد اور انسانی حقوق کے پیش نظر ایک آزادی مہم کا آغاز بھی کیا گیا جسے 50 for freedom campaign کا نام دیا گیا۔ اس سے کم از کم 50 ممالک میں جدید غلامی پر قابو پانا شامل ہے۔۔۔( وریشہ مسعود )۔۔