تحریر: حامد میر۔۔
16جون 2019ء کو اتوار کا دن تھا۔ چھٹی کے دن سرکاری دفاتر بند ہوتے ہیں۔ صرف کسی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی سرکاری ادارہ حرکت میں آتا ہے۔ اس دن بھی کوئی ایسی ہی ایمرجنسی تھی۔ اتوار کے دن آئی ایس پی آر نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا گیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ہٹا کر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ادارے کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔ عاصم منیر صاحب نے اس عہدے پر صرف آٹھ ماہ کام کیا تھا اس لئے ان کے اچانک ٹرانسفر نے بہت سے سوالات پیدا کردیئے تھے۔ ایک خبر تو یہ تھی کہ عاصم منیر نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بارے میں خبر دار کیا تھا کہ ان کے ارد گرد موجود لوگ وزیر اعظم کے نام پر کرپشن کر رہے ہیں لیکن سفارتی حلقوں کا خیال تھا کہ اتوار کے دن آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے ہے۔ مئی 2019ء میں بھارت کے عام انتخابات منعقد ہوئے تھے جن میں نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم بن چکے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کے ساتھ 2017ء میں ایک بیک چینل کھولا تھا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تائید شامل تھی۔ باجوہ اس چینل کو دوبارہ متحرک کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے خیال میں عاصم منیر اس کام کیلئے مناسب نہیں تھے لہٰذا انہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے عمران خان کے ذریعہ اتوار کے دن عاصم منیر کو ہٹا کر فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنوا دیا۔ فیض حمید کا آئی ایس آئی کا سربراہ بننا میرےلئے تشویش کا باعث تھا۔2017ء میں جب وہ ڈی جی سی تھے توانہوں نے کرنل لیاقت کے ذریعہ ملاقات کیلئے بلایا۔ یہ وہ دن تھے جب فیض آباد معاہدے کی دستاویز پر ان کے دستخطوں پر تنازع کھڑا ہو چکا تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ موصوف کوئی روک ٹوک لگائیں گے لہٰذا ملاقات سے معذرت کرلی۔ کچھ دیگر ذرائع سے ان کی ناراضی مجھ تک پہنچتی رہی۔ایک دن کسی ڈنر میں انہوں نے میرے ساتھ اتفاقیہ ملاقات کا بندوبست کیا اور مسکرا کر کہا کہ آپ اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ جاری رکھیں لیکن ہمارے ساتھ دوستی میں حرج نہیں۔ اس جملے نے مجھے مزید محتاط کردیا۔ میں کسی شوق یا فیشن کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نہیں کرتا بلکہ کچھ وجوہات کے باعث تنقید کرتا ہوں۔ چند ہی دن گزرے تھے کہ میں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں آصف علی زرداری کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو نشر ہونا شروع ہوا تھا کہ دبائو ڈال کر بند کرا دیا گیا۔ بی بی سی اور الجزیرہ سمیت کئی غیر ملکی ذرائع ابلاغ مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہوا ہے؟ وفاقی وزارتِ اطلاعات اور پیمرا نے کہہ دیا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے بھی اعلانِ لاتعلقی کر دیا۔ پتہ چلا یہ کام فیض حمید صاحب کا ہے اور وہ تردید کرنے کی بجائے کہتے کہ جو بھی ہوا وزیراعظم عمران خان کے حکم سے ہوا۔
ڈی جی آئی ایس آئی بننے کےبعد فیض حمید نے پاکستانی میڈیا کو مارشل لا ادوار کی یاد دلا دی۔ بظاہر وہ سب کچھ عمران خان کیلئے کر رہے ہوتے تھے لیکن حقیقت میں باجوہ اور فیض اپنے ایجنڈے کے تحت میڈیا کے ذریعے عمران خان سے اپنی مرضی کےفیصلے کرانے کی کوشش کرتے۔ جنرل فیض کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے فوراً بعد 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ اس واقعے کے بعد عمران خان نے بھارت کی شدید مذمت شروع کردی اور باجوہ نے فیض کے ذریعے اجیت ڈوول کے ساتھ میل ملاقاتیں شروع کر دیں۔ پاکستان میں موجود سید علی گیلانی کے ایک نمائندے کو ان میل ملاقاتوں کی خبر ہوگئی۔ اس نے سوالات اٹھانے شروع کئے تو اس کے ساتھ غنڈہ گردی کی گئی۔ سینئر قانون دان اکرم شیخ ایک کتاب لکھ رہے تھے جس میں جنرل ظہیر اور جنرل فیض کا بھی ذکر تھا۔ ان کے گھر ڈکیتی کرائی گئی اور ڈاکو ان کی کتاب کا مسودہ لے گئے۔ بعد میں جنرل باجوہ نے شیخ صاحب سے معذرت کی۔ جولائی 2020ء میں صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا۔ اپریل 2021ء میں ابصار عالم پر گولی چلائی گئی۔ مئی 2021ء میں صحافی اسد طور کے گھر میں گھس کر ان پر تشدد کیا گیا۔ ان سب نے آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسد طور پر حملے کے بعد میں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر ایک سخت تقریر کردی تو مجھ پر پابندی لگوا دی گئی۔
پابندی کے بعد میں نے واشنگٹن پوسٹ اور ڈی ڈبلیو اردو میں کالم لکھنا شروع کیا تو فیض حمید نے تین مختلف ذرائع سے پیغامات بھیجے کہ اسد طور پر حملے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ میں نے جواب بھیجا کہ آپ ملزمان کو پکڑ لیں کیونکہ وہ سی سی ٹی وی کیمروں میں نظر آ رہے ہیں معاملہ ختم ہو جائے گا۔ ایک دن کچھ صحافی دوست میرے پاس آئے اور کہا کہ اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان پکڑے گئے ہیں۔ اب آپ فیض صاحب کے ساتھ معاملہ طے کریں تاکہ آپ پر پابندی ختم ہو جائے۔ صحافی دوستوں نے جنرل فیض سے ملاقات پر اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ میری تو کسی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں۔ اگر اسد طور پر حملہ کرنے والوں کی گرفتاری کا اعلان کردیا جائے تو میں فیض سے معذرت کرلوں گا۔ مجھے کہا گیا کہ ملزمان کی گرفتاری کا کل اعلان ہوجائے گا۔ یہ دوست مجھے فیض صاحب کے پاس لے گئے۔ جب میں نے پوچھا کہ اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کہاں ہیں تو آئی ایس آئی کے سربراہ آئیں، بائیں، شائیں کرنے لگے۔ان کا خیال تھا کہ ہم معافی تلافی کے لئے آئے ہیں جب ہم نے ملزمان مانگنے شروع کئے تو کہا گیا شام تک پریس کانفرنس ہوجائے گی۔ وہ پریس کانفرنس کبھی نہ ہوئی۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ فیض صاحب کی سب سے بڑی خوبی بھی جھوٹ بولنا تھی اور سب سے بڑی خامی بھی جھوٹ بولنا تھی۔ انہوں نے بلوچستان کے ایک سینیٹر کے کپڑوں میں خفیہ کیمرہ چھپا کر اسے بشریٰ بی بی کے ساتھ ملاقات کیلئے بنی گالہ بھیجا اور ساتھ میں بھاری رقم دی تاکہ بشریٰ بی بی کو رقم دینے کی ویڈیو بن جائے۔ سینیٹر صاحب بشریٰ بی بی کے پاس نہ پہنچ سکے۔ لہٰذا خاتون اول کو قابو کرنے کیلئے فیض نے اپنے ایک ماتحت رحمت کو جعلی پیر بنایا۔ پھر پیر صاحب بشریٰ بی بی تک پہنچ گئے۔ آج کل خبریں گرم ہیں کہ فیض کا بشریٰ بی بی پر بہت اثر تھا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ فیض کے خلاف کارروائی فوج کا اندرونی معاملہ ہے۔ معاملہ اندرونی ضرور ہے لیکن بڑا گھمبیر ہے۔ خان صاحب فیض کا دفاع نہ ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ فیض کے متاثرین کی ایک بڑی تعداد ان کے اردگرد موجود ہے۔ جب فیض کے پاس طاقت و اختیار تھا تو ’’انجمن محبانِ فیض‘‘ میں چاروں صوبوں کے سیاستدان شامل تھے۔ ایک بلوچ سیاستدان کو اسلام آباد میں عالیشان گھر کا فیض بھی ملا۔ اب محبان ِفیض کی جگہ ’’انجمن متاثرین فیض‘‘ نے لے لی ہے جس میں ملک کے صدر اور وزیر اعظم سے لے کر چیف جسٹس اور آرمی چیف بھی شامل ہیں۔ فیض نے ان سب کے خلاف جھوٹ بولا۔ فیض کے احتساب کا مقصد صرف انہیں سزا دلوانا نہیں بلکہ پاکستان میں جھوٹ کے راج کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ جو کچھ فیض کرتے رہے کیا ان کی گرفتاری کے بعد وہ سب بند ہوگیا ہے؟’’انجمن متاثرین فیض‘‘کو چاہیے کہ وہ سب کچھ بند کردیں جس کے ذریعے فیض نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔(بشکریہ جنگ)۔۔