تحریر: خرم علی عمران۔۔
فکرِ نان و جویں میں مستغرق ،معاشی بھاگ دوڑ میں الجھے ہوئے لوگوں کے پاس اب حس ِ جمال کو تسکین دینے والے حقیقی فنون یعنی ادب شاعری مصوری موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ ے لئے اب وقت ہی کہاں بچتا ہے۔ میری مراد زیادہ تر تخلیق کاروں سے ہے یعنی اب ان فنونِ لطیفہ میں شہہ پارے تخلیق ہونا کم کم سے ہوگئے ہیں اور آج کل وقت لوگوں کے پاس بہت کم ہوگیا ہے۔۔ بہت مصروف ہوگئی زندگی میری۔۔ تجھے سوچوں گا جب وقت ملے گا۔۔ کے مصداق اب تو محبوب کو سوچنے کا بھی وقت نہیں مل پاتا کہاں وہ ویلا ٹائم بھی تھا کہ اٹھے بیٹھے لیٹے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے سوٹا مار کے والا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ ہائے کیا زمانہ تھا۔ اب تو یہ حال ہے کہ بہت سے وہ کام جو عملی حیثت میں تو کچھ خاص حیثیت کے حامل نہیں مگر قلبی و ذہنی، ادبی و رومانوی اور جمالیاتی اعتبار سے بڑے معرکے کی باتیں،چیزیں، کام اور معاملے سمجھے جاتے ہیں ان کے لئے بھی اب تو یہی کہنا نہیں کہ بھائی میرے کہیں گے کس کسے؟ بلکہ سوچنا پڑتا ہے کہ کرلیں گے جب ٹائم ملے گا۔ جدوں پیٹ نہ ہوون روٹیاں۔۔فیر ساریاں گلاں جھوٹیاں۔۔۔
کبھی سوچتا ہوں کہ میر و غالب، مومن و درد اور اقبال جیسے اور دیگر شعراء اور پروین شاکر و ادا جعفری جیسی شاعرات بھی اور منٹو،کرشن چندر،اشفاق احمد بانو قدسیہ، عصمت آپا،ابن صفی صاحب اور دیگر بہت سے خواتین و حضرات کے ساتھ بھی اگر یہی معاملہ ہوتا تو کتنا مزہ آتا کہ ارے میر صاحب ایک غزل یا دو غزلہ تو عنایت فرمادیں اور میر کہتے کہ فرمادیں گے جب ٹائم ملے گا۔ یونہی غالب کسی ادبی فرمائش پر بے نیازی سے فرماتے کہ ہاں ہاں کرتے ہیں، کردیں گے جب ٹائم ملے گا تو ہم یا ہمارا اردو ادب کیسے کیسے شہہ پاروں سے محروم رہ جاتا اگر ان مہان اور عبقری فنکاروں کو بے نیازیء وقت و معاش انکے زمانوں کے قدردانوں نے فراہم نہ کردی ہوتی تو کیا پھر بھی وہ ایسی شاہکار شاعری کر پاتےیا کہانیاں لکھ پاتے۔
اگر منٹو،کرشن جی اور خواتین ادیبوں سے کسی افسانے ،خاکے یا ابن صفی مرحوم سے جاسوسی دنیا یا عمران سیریز کے نئے ناول کی استدعا اور ان سب کا آگے سے جوابا یہ کہنا کہ دے دیں گے یار لکھتے ہیں ابھی ذرا یا کرتے ہیں کچھ جب ٹائم ملے گا تو کیسا رہتا؟ تو معلوم یہ ہوا کہ ایک عام آدمی ایک فکر معاش میں سر تا پاؤں غرق ایک ادبی و معاشی اعتبار سے بے سہارا فرد کبھی بھی بالا درج کردہ ادیبوں اور شعراء کو تو خیر جانے دیں کہ وہ تو سب کے سب بہت ہی بڑے نام ہیں انکی صفِ دوم میں بھی نہیں شامل ہوسکتا خواہ کتنی ہی ادبی صلاحیتوں کا ہی حامل کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ بس یہ کہنا کہ جب ٹائم ملے گا یہ بجائے خود اس بات کا اعلان اور اپنے پیچھے چھپے پورے طرزِ زندگی کا ترجمان ہے کہ بھیا ابھی تو روٹی کمانی ہے ابھی تو دوا لانی ہے،ابھی تو بیٹی بیاہنی ہے ابھی تو حیثیت بنانی ہے ابھی تو آمدنی بڑھانی ہے، ابھی کہاں ٹائم ہے یار،ابھی یہ مشغلہء شعر و ادب ہے بے کار،پیٹ کیسے بھرو گے میرے سرکار، اتارو یہ ادبی شہہ پارے تخلیق کرنے کا اپنے سر سے خمار، جب گھر بنالیں گے،جب بینک بیلنس تسلی بخش حد سے آگے تک بڑھا لیں گے جب یہ کمالیں گے جب وہ بنالیں گے جب یہ سب کر لیں گے تو کردیں گے پھر ادب کی بھی خدمت جب ٹائم ملے گا تو۔
اچھا بھائی چلو چھوڑو ناراض کیوں ہوتے ہو۔ شعر و ادب کو جانے دوکچھ مرے وطن کے امراء و اشرافیہ والے ذمہ داران پالیسی میکرز، فیصلہ کنندگان اور صاحبانِ اختیار سے کہوں نا کہ بھائی کچھ ایسا کام کرلو کوئی ایسی پالیسی کوئی ایسی حکمت عملی بنالو کہ غریب غرباء بھی ذرا سکھ کا سانس لے سکیں کچھ آرام سے ان جلتی بلتی زندگی کی گلیوں سے گزر سکیں کچھ اضطراب،بے چینی اور تناؤ سے بھری زندگی میں چین سکون اطمینان راحت محسوس کرسکیں تو جواب ملتا ہے، کہا ہے کہلوایا ہے بتایا ہے سمجھایا ہےتحریر سے تقریر سے زبان سے بیان سے ہر ممکنہ دستیاب طریقے سے انہیں ۔اچھا اچھا،ویری گڈ! واہ بھئی واہ پھر کیا کہتے ہیں وہ؟ وہ وہی کہتے ہیں جو وہ کہتے رہے ہیں چہرے بدلنے سے الفاظ نہیں بدلے ۔ ارے تو آخر کہتے کیا ہیں ؟ وہی کہ ہاں ہاں ضرور ضرور کریں گے کیوں نہیں کریں گے سب سے پہلے یہی کریں گے جب ٹائم ملے گا تو۔
تو جانے یہ کم بخت ٹائم ملے گا تو کب ملے گا کیسے ملے گا کیونکر ملے گا۔ اس تیز رفتار زندگی نے ،اس بھیڑ چال نے، اس اندھی دوڑِ زر و مال نے تو ہم سے سکون جیسی نعمت چھین لی، معاش کی فراخی و فراوانی کے چکر میں پڑ کر اکثر و بیشتر افراد اعلی جمالیاتی و روحانی جذبات و کیفیات سے دور ہو بیٹھے ہائے افسوس! بس اب تو جسے دیکھوں ہانپتا کانپتا دوڑے چلا جارہا ہے بس اور بہت سی باتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بس یہی کہے جارہا ہے کہ جب ٹائم ملے گا جب ٹائم ملے گا نہ جانے کب یہ ٹائم ملےگا ؟(خرم علی عمران )۔۔