تحریر: جاوید چودھری۔۔
دنیا میں چین کے 161 سفارت خانے ہیں‘ ان میں صرف دو ایسے ملک ہیںجن میں چین کے سیاست دان سفیرتعینات ہیں اور یہ دو ملک ایتھوپیا اور پاکستان ہیں۔
پاکستان میں اس وقت نونگ رونگ Nong Rong)) سفیر ہیں‘ یہ سیاست دان بھی ہیں اور چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے ممبر بھی‘ یہ 1987 میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے‘ 1991 میں ’’فارن اکنامک اینڈ ٹریڈ کمیشن‘‘ کا حصہ بنے‘ پھر یہ کارپوریٹ ڈویژن کے ڈائریکٹر ہوئے‘ وائس میئر بنے‘ ڈپٹی پارٹی چیف رہے‘ نسلی اور مذہبی امور کے ڈائریکٹر بنا دیے گئے اور آخر میں ستمبر 2020 میں انھیں سفیر بنا کرپاکستان بھجوا دیا گیا‘نونگ رونگ کی تعیناتی کی چار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سی پیک ہے‘ چین دنیا سے زمینی رابطے کے لیے پاکستان میں 58 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے‘ امریکا یہ منصوبہ رکوانا چاہتا ہے۔
ن لیگ دعویٰ کرتی ہے ہماری حکومت کے خاتمے میں سی پیک کا اہم رول تھا‘ میاں نواز شریف کو نکال کر عمران خان کو سی پیک رکوانے کے لیے لایا گیا‘ چین یہ منصوبہ ہر صورت مکمل کرنا چاہتا ہے‘ دوسری وجہ افغانستان سے نیٹو فورسز کا انخلاء ہے‘ افغانستان میں طالبان تگڑے ہو رہے ہیں‘ انھیں داعش اور چینی مخالف تحریک’’ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ‘‘ کی حمایت بھی حاصل ہے‘ چین کا خیال ہے امریکا مستقبل میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کو سپورٹ کرے گا اور یہ طالبان کے ساتھ مل کر سنکیانگ میں گڑ بڑ شروع کر دے گی۔
تیسری وجہ پاکستان شدید سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہے‘ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ سلام لینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ اس کا نقصان چینی کمپنیوں اور منصوبوں کو پہنچ رہا ہے اور چوتھی وجہ چین کو پاکستان کی موجودہ حکومت کی فلاسفی سمجھ نہیں آ رہی‘ یہ کبھی کمیونسٹ بن کر کاروباری طبقے کو لٹا دیتی ہے اور کبھی انھیں اندھا دھند رعایتیں دے دیتی ہے‘ چین پی ٹی آئی کی پولیٹیکل فلاسفی اور ذہنی رجحان کو سمجھنا چاہتا ہے۔
یہ وہ چار وجوہات ہیں جن کی بنا پر چین نے ستمبر2020 میں اپنا ڈپلومیٹ سفیر واپس بلایا اور تاریخ میں پہلی بار ایک سیاست دان کو سفیر بنا کر بھجوا دیا‘ نونگ رونگ کے بعد چین نے زوہو ژان (Zhao Zhiyuan) کو ایتھوپیا بھجوا دیا‘ یہ بھی سیاست دان ہیں اور چین کو ایتھوپیا میں بھی پاکستان جیسی صورت حال کا سامنا ہے‘ اس نے وہاں بھی 50 بلین ڈالر کے پراجیکٹس شروع کر رکھے ہیںاوریہ بھی التواء کا شکار ہیں۔
قومیں اور ملک اس طرح سوچتے ہیں‘ یہ گھی نکالنے کے لیے بعض اوقات اپنی ساری انگلیاں بھی ٹیڑھی کر لیتے ہیں‘آپ اس مثال کو سامنے رکھیں اور پھر صرف ایک سوال کا جواب دیں‘ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں‘ اس میں عمران خان کا کوئی قصور نہیں‘ معیشت کبھی عمران خان کا سبجیکٹ ہی نہیں رہا‘ وزیراعظم نے آج تک کوئی بجٹ بنایا اور نہ معیشت پڑھی‘ ملک میں مہنگائی کنٹرول نہیں ہو رہی‘ اس میں بھی عمران خان کا کوئی قصور نہیں‘ عمران خان نے آج تک اپنی جیب سے کوئی چیز نہیں خریدی‘ لوگ پچاس سال سے ان کی خدمت کر رہے ہیں۔
ان کا گھر ہو‘ اسپتال ہو یا پھرپارٹی ہو یہ لوگ چلاتے ہیں چناں چہ انھیں آٹے دال کا بھاؤ کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ عمران خان سے پارٹی کنٹرول نہیں ہو رہی‘ اس میں بھی ان کا کوئی قصور نہیں‘ یہ کپتان رہے ہیں اور کپتان صرف ایک میچ یا ایک سیریز کے لیے ٹیم بناتا ہے اور جوں ہی سیریز یا میچ ختم ہوتا ہے تو ٹیم تتر بتر ہو جاتی ہے‘میچ کے دوران بھی کھلاڑی ایک دوسرے سے لڑتے اور الجھتے رہتے ہیں‘ کپتان کو ان کی لڑائی کا بھی فائدہ ہوتا ہے‘ یہ ان کی لڑائیوں کی پرواہ نہیں کرتا لہٰذا میں پارٹی کے کم زور سٹرکچر کے سلسلے میں بھی عمران خان کو بے قصور سمجھتا ہوں۔
عمران خان بار بار کا بینہ ری شفل کرتے رہتے ہیں‘ یہ فواد چوہدری کو ہٹاتے ہیں اور پھر لگا دیتے ہیں‘ یہ تین سال میں چار وزیر خزانہ بھی بدل دیتے ہیں‘یہ بالآخر مونس الٰہی کو بھی وزیر بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یہ آج کل میں جی ڈی اے کو بھی مزید وزارت دے دیں گے اور ایم کیو ایم کے مطالبات بھی مان لیں گے‘ یہ اس معاملے میں بھی بے قصور ہیں‘ کپتان ہمیشہ ایک ایک اوور سامنے رکھ کرکھیلا کرتا ہے‘ باؤلر اگر پرفارم نہیں کر رہا‘ یا بیٹس مین نے گند کر دیا تو یہ اسے اگلی بار نہیں کھلائے گا یا پھر اس کو پہلے یا آخر میں لے جائے گا اور عمران خان سفارت کاری میں بھی مار کھا رہے ہیں‘ یہ کبھی امریکا سے پاکستان کے تعلقات خراب کر دیتے ہیں۔
کبھی سعودی عرب سے‘ کبھی ترکی اور ملائیشیا سے اور کبھی اپنے بیانات کے ذریعے چین کو پریشان کر دیتے ہیں‘ یہ اس میں بھی بے قصور ہیں کیوں کہ یہ سفارت کاری کے طالب علم رہے ہیں اور نہ انھوں نے کبھی سفارت کاری کی چناں چہ یہ اس معاملے میں بھی بے گناہ ہیں لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ کرکٹ تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھی‘ یہ ان کے خون میں دوڑتی تھی اور ان کا بیٹ اور بال سے 21سال تعلق رہا‘ یہ دنیا میں اگر کسی چیز کے ایکسپرٹ ہو سکتے ہیں تو وہ کرکٹ ہے لیکن ورلڈ چیمپیئن وزیراعظم کے دور میں کرکٹ کا کیا حال ہے؟ پوری دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت انگلینڈ کے دورے پر ہے‘ اس نے وہاں تین ون ڈے اور تین ٹی 20 میچز کھیلنے ہیں‘ تین ایک روزہ میچوں میں پاکستانی ٹیم کی حالت دنیانے دیکھی اور اس کی ہنسی نکل گئی‘یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب کورونا کی وجہ سے انگلینڈ کے 9 بڑے کھلاڑی ٹیم سے باہر ہیں‘ کرکٹ ماہرین کو امید تھی پاکستان جو کام 47سال میں نہ کر سکا وہ اس بار ضرور کر دے گا کیوں کہ اسے اس سے کم زور ٹیم دوبارہ نہیں ملے گی لیکن آپ المیہ دیکھیں انگلینڈ کی دوسرے درجے کی ٹیم نے بھی پاکستانی ٹیم کوناکوں چنے چبوا دیے۔خدا کی پناہ عمران خان جیسا ورلڈ چیمپیئن وزیراعظم ہو اور ہماری ٹیم انگلینڈ کی دوسرے درجے کی ٹیم سے بھی وائیٹ واش ہو جائے‘ وزیراعظم کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟یعنی آپ جس شعبے کے ایکسپرٹ ہیں آپ اس میں بھی پرفارم نہیں کر پا رہے‘آپ نے کرکٹ کو بھی پاک اسٹیل مل‘ ریلوے اور پی آئی اے بنا دیا‘ آپ نے اس کو بھی میاں شہباز شریف کا اسٹیٹس دے دیا‘کیا یہ بھی پچھلی حکومتوں کا گناہ ہے؟
ہمارے سینئر بتاتے ہیں صدر ایوب خان کے زمانے میں پاکستان دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل تھا‘ دنیا ہماری ترقی کی مثالیں دیا کرتی تھی‘ درمیان میں جنرل یحییٰ خان کا دور آیا‘ جنگ ہوئی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا لیکن خوش حالی اور ترقی کا دور چلتا رہا‘ ملک میں مہنگائی‘ لاقانونیت‘ افراتفری یا معاشی بدحالی نہیں آئی مگر جب ذوالفقار علی بھٹو آئے تو انھوں نے صنعتوں کو قومیا کر خوف ناک معاشی بحران پیدا کر دیا‘ ملک میں ہڑتالیں بھی شروع ہو گئیں اور مہنگائی اور افراتفری بھی آ گئی‘ بھٹو صاحب عالمی لیڈر تھے‘ ان جیسا ذہین سیاست دان پاکستان نے آج تک پیدا نہیں کیا۔
ان کو چاہیے تھا وہ صورت حال کا تجزیہ کرتے اور اپنی حکمت عملی بدل دیتے لیکن وہ اپنی غلطیوں کے ادراک کی بجائے اپوزیشن‘ میڈیا‘ بیوروکریسی اور پارٹی کے سچے اور کھرے لوگوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے‘ جو بھی بولتا تھا وہ سیدھا جیل جاتا تھا‘ تمام بڑے صحافی شاہی قلعے پہنچا دیے گئے‘ سیاست دان دلائی کیمپ میں ڈال دیے گئے‘ بیورو کریٹس کو جبری ریٹائر کر دیا گیا اور پارٹی میں جس نے بھی سمجھانے کی کوشش کی اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا نتیجتاً ملک میں دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا‘ معیشت پہلے ہی سے خراب تھی‘ اوپر سے دہشت بھی آ گئی لہٰذاملک بیٹھتا چلا گیا‘ بھٹو صاحب نے حالات کی نزاکت سمجھنے اور پرفارمنس پر توجہ کی بجائے تقریروں میں پناہ لے لی‘ وہ بلا کے مقرر تھے‘ وہ جب بولتے تھے تو ان کے لفظ لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے تھے۔
بھٹو صاحب نے اپنے اس آرٹ کو سیاسی سہارا بنالیا‘ وہ تقریریں کرتے رہے اور ملک دلدل میں دھنستا رہا یہاں تک کہ فوج نے ایک رات ایشیا کے سب سے بڑے لیڈر کو خواب گاہ سے نکال کر حراست میں لے لیا‘ ذوالفقار علی بھٹو کا خیال تھا وہ گرفتار ہوں گے تو ہمالیہ روئے گا لیکن ہمالیہ نے رونے سے انکار کر دیا‘ مزید المیہ یہ تھا کابینہ کا ایک وزیر بھی اپنے لیڈر کے لیے باہر نہیں نکلا‘ جیالے بھی گھروں میں بیٹھے رہے ‘یہ حالات دیکھ کر جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی المیہ تھا مگر المیے کے اس دن بھی کوئی سڑک بند ہوئی اور نہ ہی کسی دکان کا شٹر گرا‘ کاروبار حیات اپنی رفتار سے چلتا رہا‘ اس دورکے لوگ آج کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں عمران خان بھی ذوالفقار علی بھٹو بنتے جا رہے ہیں۔
یہ پرفارمنس پر توجہ دینے اور ’’رائیٹ پرسن فار دی رائیٹ جاب‘‘ کی بجائے تقریر سازی پر لگ گئے ہیں‘ ان کے پاس بھی ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے‘ تقریر‘ آپ تقریر سنیں تو لگتا ہے پاکستان قرضے دینے والا ملک بن چکا ہے لیکن بیلنس شیٹ دیکھیں تو حکومت نے اڑھائی سال میں ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے کے قرضے لے لیے ہیں‘ مہنگائی 13فیصد ہو چکی ہے‘ جنگ سرحدوں پر چڑھ کر بیٹھی ہے‘ بجلی بھی اضافی ہے اور لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے۔
پنجاب میں عثمان بزدار بیٹھے ہیں اور کے پی کے میںمحمود خان اور یہ کیوں بیٹھے ہیں کسی کو معلوم نہیںاور آپ ملک چھوڑیں چیمپیئن وزیراعظم کرکٹ بھی ٹھیک نہیں کر سکے اور آپ اس کے ساتھ ساتھ وزراء کی گردنوں کی اکڑ اور لہجوں کا تکبر بھی دیکھ لیں‘ اللہ معاف کرے ہم واقعی کسی خوف ناک بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
کاش ہم چین ہی سے کچھ سیکھ لیتے‘ یہ ضرورت پڑنے پر سیاست دانوں کو سفیر بنا دیتا ہے جب کہ ہم انا کے مینار سے نیچے نہیں جھانک رہے‘ ہم بات بھی آسمان کو دیکھ کر کرتے ہیں‘یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ لوگ ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں؟کیا اس ملک میں کسی کو بھی احساس نہیں؟ (بشکریہ ایکسپریس)۔