تحریر: جاوید چودھری۔۔
یہ 2013 کے دسمبر کی بات ہے‘ڈالر 108 روپے کا ہو گیا‘ اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے اور شیخ رشید قائد انقلاب‘ ڈالر حکومت کے کنٹرول سے نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا‘ عمران خان اور اسد عمر نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ میڈیا نے بھی کہرام برپا کر دیا۔
یہ اسی دور کی بات ہے جب آج کے وزیراعظم نے فرمایا تھا‘ ڈالر ایک روپیہ اوپر جاتا ہے تو 100ارب روپے قرضہ بڑھ جاتا ہے‘ اسد عمر بھی فرمایا کرتے تھے شریف ملک کو کھا گئے‘ تباہ کر دیا اور برباد کر دیا وغیرہ وغیرہ‘ میڈیا نے اسحاق ڈار پر دباؤ ڈالنا شروع کیا تو ڈار صاحب نے بیان دیا ‘ہم عن قریب ڈالر 100 روپے پر لے آئیں گے‘ یہ بیان سن کر شیخ رشید نے اعلان کیا تھا اسحاق ڈار اگر ڈالر کو100 روپے پر لے آئے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔
ہمیں اس زمانے میں شیخ رشید کی بات درست محسوس ہوتی تھی‘ کیوں؟ کیوں کہ پاکستان کی تاریخ میں روپیہ ایک بار گر کر دوبارہ واپس نہیں آیا لہٰذا میڈیا کا خیال تھا اسحاق ڈار روپے کو دوبارہ مستحکم نہیں کر سکیں گے لیکن اسحاق ڈار نے جادو چلایا اور ڈالر نیچے آتے آتے 100 روپے تک پہنچ گیا اور یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا‘ میڈیا نے شیخ رشید سے اگلے سیاسی لائحہ عمل کے بارے میں پوچھا تو یہ حسب معمول اپنا دعویٰ بھول چکے تھے لہٰذا انھوں نے نیا اعلان فرما دیا۔
ان کا کہنا تھا اسحاق ڈار زیادہ دیر تک ڈالر کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے‘‘ اسحاق ڈار نے یہ بھی کر دکھایا‘ آج حکومت ڈالر کو 175 روپے پر پہنچا کربھی فرما رہی ہے اسحاق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے برقرار رکھا تھا‘ دنیا کا کوئی نالائق شخص ان سے پوچھے‘ جناب وہ طریقہ مصنوعی ہی سہی لیکن قوم کو اس کا فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور آپ آج معیشت کو اصلی اور جینوئن طریقے سے چلا رہے ہیں تو قوم کو اس کا فائدہ ہورہا ہے یا نقصان؟میراخیال ہے ان کا جواب ہوگا اسحاق ڈار ڈالر کو 105 روپے پر رکھ کر بھی قوم کے مجرم تھے اوریہ ڈالر کو 175 روپے پر لا کر بھی ہیرو ہیں۔
ملک میں پچھلے ساڑھے تین سال میں جو کچھ ہوا ہم اگر اسے ایک فقرے میں بیان کریں تو وہ یہ ہو گا ’’کرپٹ لوگ نالائقوں اور نااہلوں سے ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں‘‘ ماضی کی دونوں حکومتیں کرپٹ ہوں گی لیکن یہ سچ ہے پاکستان پیپلز پارٹی عالمی مارکیٹ سے 147 ڈالر فی بیرل پٹرول خرید کر عوام کو86 روپے لیٹر دیتی تھی جب کہ آج کی ایمان دار حکومت کے دور میں عالمی مارکیٹ میں پٹرول 84 ڈالر فی بیرل ہے لیکن یہ ملک میں 138روپے فی لیٹر دے رہے ہیں‘ آصف علی زرداری کے کرپٹ دور میں ڈالر98 روپے میں ملتا تھا‘ آٹا 40روپے کلو تھا‘ بجلی کے نرخ 9 روپے یونٹ تھے۔
چینی60 روپے کلو تھی اور کھانے کا تیل 200 روپے لیٹر تھا لیکن آج کے ایمان دار دور میں کوکنگ آئل 360روپے لیٹر‘ چینی115روپے کلو‘ بجلی اوسطاً17 روپے 83پیسے فی یونٹ‘ آٹا80روپے اور ڈالر 175 روپے میں مل رہا ہے اور صادق اور امین حکومت اس کے باوجود اعلان کر رہی ہے حالات اگلے جون تک بہتر نہیں ہو سکیں گے‘ آج عمران خان کے دائیں بائیں جتنے امیر اور رئیس لوگ کھڑے ہیں‘ یہ تمام لوگ آصف علی زرداری کے دور میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے امیر ہوئے تھے لہٰذا پیپلز پارٹی کی حکومت اگر انڈسٹری کو ریلیف نہ دیتی تو آج عمران خان کا ایک بھی ڈونر موجود نہ ہوتا‘ ہم اگر میاں نواز شریف کے دور کو بھی ملک کا کرپٹ ترین زمانہ سمجھ لیں تو بھی قوم کو نواز شریف کی تین نیکیاں ہمیشہ یاد رکھنی ہوں گی۔
ملک میں 2013ء میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی لیکن 2018 میں ملک کا ہر بلب جل رہا تھا‘ وہ لوگ خواہ الٹے لٹک کر بجلی پیدا کرتے رہے لیکن ان لوگوں نے بہرحال بجلی بنائی اور جلائی‘ دوسرا ملک میں روزانہ بم دھماکے ہوتے تھے‘ کراچی رہنے کے قابل نہیں رہا تھا‘ نواز شریف نے ملک سے دہشت گردی مکمل طور پر ختم کر دی‘ کراچی میں بھی امن بحال ہو گیا اور تیسرا نواز شریف نے سی پیک شروع کرایا‘ یہ چین کو گوادر تک لے آیا جس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں شروع ہو گئیں‘ آپ موٹرویز‘ میٹروز اور زراعت کو سائیڈ پر رکھ دیں تو بھی نواز شریف کا کنٹری بیوشن کم نہیں تھا اور یہ شخص بہرحال تاریخ میں زندہ رہے گا ہم مانیں یا نہ مانیں۔
میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا ناقد تھا اور میں آج بھی ہوں‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی ہوں لیکن کیا میری نفرت یا میری محبت سے حقائق بدل جائیں گے‘ جی نہیں‘ ہرگز نہیں‘ دنیا میں اگر قول اور فعل کے تضاد کی کوئی بدترین مثال ہو سکتی ہے تو وہ آج کے حکمران ہیں‘ عمران خان منہ سے روزانہ ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن انھوں نے ساڑھے تین برسوں میں اچھی بھلی چلتی دوڑتی ریاست کو ریاست تشویش بنا دیا‘آپ ڈھٹائی کا معیار دیکھیے‘ یہ لوگ چار وزیر خزانہ بدل کر بھی اور ملک اور معیشت تباہ کر کے بھی صادق اور امین ہیں جب کہ ڈالر کو چارسال 105 روپے تک رکھنے والا اسحاق ڈار کرپٹ ہے‘ مہنگائی کو ایک ہندسے پر رکھنے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کرپٹ اور بدترین ہیں جب کہ یہ 17فیصد مہنگائی کے بعد بھی نیک اور پارسا ہیں۔
سی پیک شروع کرنے والے برے تھے اور سی پیک روکنے والے نیک ہیں‘ 8 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو میں ایل این جی لانے والے نالائق تھے اور15ڈالر ایم ایم بی ٹی یومیں سودے کرنے والے ارسطو ہیں‘ ایکسٹینشن نہ دینے والے بزدل تھے اور چیئرمین نیب کی ایکسٹینشن کے لیے بھی آرڈیننس جاری کرنے والے بہادر ہیں‘ عدالتوں میںپیشیوں کے باوجود کام کرنے والے نالائق ہیں اور عدالت کے سرٹیفائیڈ صادق اور امین پورا ملک ڈبو کر بھی لائق ہیں‘ وہ لوگ55روپے کلو چینی‘35روپے کلو آٹا‘ 170روپے لیٹر کوکنگ آئل‘ 87 روپے 70پیسے لیٹر پٹرول‘ 11روپے72 پیسے فی یونٹ بجلی‘ پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد گروتھ‘تین میٹروز اور بارہ موٹرویز کے باوجود کرپٹ‘ ملک دشمن اور نالائق تھے اور یہ لوگ پورے ملک کو بدامنی‘ کرپشن‘ نالائق اور فساد میں دفن کر نے کے بعد بھی ایمان دار اور اہل ہیں۔
آپ بجلی کے نرخ دیکھ لیں‘ پٹرول اور ڈالر کی اڑان دیکھ لیں‘ آپ کھانے پینے کی اشیاء دیکھ لیں‘ بے روزگاری اور لاقانونیت دیکھ لیں‘ اداروں کے درمیان ٹکراؤ دیکھ لیں‘ خارجہ امور دیکھ لیں اور داخلی حالات دیکھ لیں‘ کیا آپ کو یہ ملک چلتا ہوا نظر آ رہا ہے؟ پورے ملک میں خوف اور ہراس کا عالم ہے۔
لوگ لوگوں سے خوف زدہ ہوتے چلے جارہے ہیں‘ یہ ہمارا ملک ہے‘ اس ملک کے ادارے بھی ہمارے ہیں لیکن آپ یقین کریں میں 52 سال کی زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے اداروں سے خوف زدہ ہوں اور اپنے ملک میں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہوں‘ ڈیپریشن میں سوتا ہوں اور ٹینشن کے ساتھ اٹھتا ہوں‘ گلی اور سڑک پر نکلتا ہوا گھبراتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے لیکن خوشی سے محروم ہوتا جا رہا ہوں اور یہ ایشو صرف میرا نہیں‘ میں جس سے بھی ملتا ہوں اس کے چہرے پر خوف اور دکھ محسوس ہوتا ہے اور میں نظریں نیچے کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔
حکومت یہ بھی فرما سکتی ہے ہم جیسے بے وقوف نفسیاتی طور پر بیمار ہیں لیکن وہ لوگ جو اپنے معصوم بچوں کو زہر دے کر خودکشی کر رہے ہیں یا وہ جو دو کی جگہ آدھی روٹی پر آ گئے ہیں یا وہ جو بیس ہزار روپے کی کمائی کے بعد پندرہ پندرہ ہزار روپے بجلی کا بل دے رہے ہیں یا وہ جو بچوں کی فیس کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں یاوہ جو ٹینشن اور ڈیپرشن کی ادویات کے عادی ہو گئے ہیں یا وہ جو گاڑی‘ پلاٹ‘ دکان یا مکان بیچ کر گزارا کر رہے ہیں یا وہ جو ضروریات زندگی کے لیے ڈاکے مارنے پر مجبور ہو گئے ہیں یا وہ جو پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے عزت کی نقدی سے محروم ہو رہے ہیں کیا یہ سب بھی نفسیاتی مریض ہیں؟ ملک میں خط غربت سے نیچے گرنے والے لوگوں کی تعداد میں دو کروڑ اضافہ ہو چکا ہے۔
کیا یہ لوگ بھی نفسیاتی مریض ہیں‘ کیا یہ بھی ہماری طرح پاگل ہیں؟ سرکاری دفتروں میں رشوت کے نرخ تین گنا بڑھ چکے ہیں اور اب رشوت لینے والے گھبراتے بھی نہیں ہیں‘ یہ سرعام پیسے وصول کرتے ہیں اور انھیں اللہ سے ڈر لگتا ہے اور نہ ریاست سے‘ خوف کا عالم یہ ہے جن سے پورا ملک خوف زدہ ہے وہ اب خود بھی خوف زدہ ہیں اور ایک دوسرے کو شک اور دہشت سے دیکھ رہے ہیں اور ہم جوہری طاقت ہیں‘ اس وجہ سے دنیا بھی ہم سے خوف زدہ ہے‘ اب سوال یہ ہے کیا ہم 21 کروڑ لوگ پاگل ہیں اور یہ ساری دنیا بے وقوف‘ نالائق‘ کرپٹ اور باؤلی ہے اور یہ دس بارہ لوگ عقل مند‘ ذہین‘ لائق اور فطین ہیں جن کے ہاتھ میں اس وقت پورے ملک کی طنابیں ہیں اور یہ روز صبح اٹھ کر کوئی نہ کوئی نیا گل کھلا دیتے ہیں‘ یہ روز نیا تماشا لگاتے ہیں اور پوری دنیا یہ تماشا دیکھتی ہے۔
ملک کے 21 کروڑ لوگ گرم توے پر بیٹھے ہیں اور دس بارہ لوگ اس صورت حال کو انجوائے کر رہے ہیں لیکن خان کی نیت اس کے باوجود نیک ہے‘ کیا ملک کی آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہیں؟اور یہ اگر آج بھی نہیں کھلیں گی تو پھر یہ کب کھلیں گی؟ دوسرا میں آج محسوس کرتا ہوں عمران خان کا آنا جتنا مشکل تھا اس کا جانا اس سے بھی مشکل ہو گا‘ یہ آیا تھا تو پورا سسٹم ٹوٹ گیا‘ ادارے اداروں کے ہاتھ سے نکل گئے‘ ملک کا والی اور وارث کون ہے اور یہ کس نے چلانا ہے یہ سوال تک بے معنی ہو کر رہ گیا تھا اور یہ اب جس دن جائے گا اس دن کیا ہو گا میں سوچتا تو میری روح لرز جاتی ہے‘ اللہ تعالیٰ واقعی اس ملک کا حامی اور ناصر ہو‘ یہ ملک اس بار حقیقتاً تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اس تباہی کے بعد کون بچے گا کوئی نہیں جانتا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔