تحریر: خرم علی عمران۔۔
وطن عزیز میں آج کل سیاست کے میدان میں بڑی رونق بڑا تماشہ لگا ہوا ہے۔ ہمارے عظیم رہبران و قائدین کا جوش و خروش جیسے روز بہ روز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس وقت ملک میں کئی لوگ اقتدار اعلی کاخواب دیکھ رہے ہیں ، جو اقتدار اعلی میں ہین وہ دن رات محنت کرکے اقتدار بچانے کی کوشش کرتے نظرا ٓ رہے ہیںکئی ہارس ٹریڈنگ کی منڈی میں بولیاں لگا اور لگوا رہے ہیں، کچھ آپس میں ہڈی او ر بوٹی پر لڑ رہے ہیں، یہ سب اپنی جگہ، مگر میں صرف ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، ہمارے عوام کی یادداشت کو خیر کمزور ہے مگر شاید یہ تحریر کسی گرگ باراں دیدہ اور پرانے صحافی و ادیب کی نظر سے گزرے تو یہ سوال ان سے ہے کہ ” 85 کے پیج میں، پچاسی کی دہائی میں پاکستانی سیاست میں داخل ہونے اور نمایاں ہونے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا موجود ہے جسے ہم بطور رول ماڈل لے سکیں،کوئی ایک نام، اگر جونیجو صاحب کی بات کریں تو انہیں بہرحال استثنا حاصل ہے، باقی،یادش بخیر ذرا غور تو کریں کیسے کیسے ،خاکم بدہن، گوہر نایاب،خانہ خراب اس دور میں نمو دار ہوئے جنہیں بھگتے بھگتے اب تو قوم کے کڑاکے نکل گئے ہیں۔اوسان خطا ہو گئے ہیں۔ یعنی یہ 85 کا سیاسی قائدین کا بیج جو کہ ہمارے ایک پیارے پیارے مرد مومن مرد حق و مرد آہن وغیرہ وغیرہ کی قوم پر بے پایاں شقفت کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا ابھی تک نہ صرف ریٹائرڈ نہیں ہوا بلکہ کئی انڈے بچے بھی دے چکا ہے۔
پاکستانی عوام کے حالات بد سے بد تر ہوتے گئے اور یہ طبقہ رہبراں و قائدین خوشحالی کی نت نئی منازل طے کرتا گیا۔ میاں کی جوتی میاں کے سر کے مصداق ہمارے ہی خرچوں پر یہ پلتے اور پنپتے رہے اور ہمیں بدلے میں مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، قرضوں کا روز افزوں اضافہ،خوشنما وعدوں اور طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہ دیا،یعنی سو پیاز کے ساتھ سو جوتے بھی کھانے پڑے اپنے اپنے قائدیں کی دلدہی میں عوام کا الاانعام کو۔ میں پوچھتا ہوں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کہ کیا یہ طبقہءرہبراں و قائدین قوم سے جھوٹ نہیں بولتا رہا،ایک بار ،دو بار، بار بار، ہر بار، بس جھوٹ ہی جھوٹ، انہوں نے سیاست کوجو خدمت اور عبادت کا مترادف ہے ا،غلاظت اور نجاست بنا دیا ، اور مزے کی بات یہ کہ احسان بھی ہم پر ہی رکھا۔ کسی نے نفرت و تعصب کو حق گوئی کے نام پر پروان چڑھا کر وطن عزیز کی بنیادیں ہی ہلا دیں، کسی نے مالی مفادات حاصل کرنے کے لئے رشوت اور سفارش کے کلچر کو اتنا پروموٹ کیا کہ اداروں کے ادارے ہی تباہ کر ڈالے، کسی نے حب وطن کے نام پر نت نئے نظاموں کے تجربے کئے اور آئین کے تقدس کو پامال کیا۔
پاکستان روتا ،سسکتا،کراہتا رہا، عوام بلکتے رہے اور بلک رہے ہیں مگر ان کی مستیاں اور بلند وبانگ قہقہے، ان کے سرخ و سفید چہروں کی چمک سب بڑھتا ہی گیا نکھرتا ہی گیا۔ اور بھی تو ملک ہیں اور بھی تو قومیں ہیں جو کل کیا تھیں اور آج ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں اور تو اور روانڈا جیسا تباہ حال ملک بھی اب اپنے حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت اور کافی کی کاشت میں اضافے کی عقل مندانہ پالیسی اپنانے کی وجہ سے خوشحالی کی شاہراہ پر قدم رکھ چکا ہے اور ہم ہیں کہ فقدان قیادت کے باعث مزید پستیوں میں گرتے جارہے ہیں اور اب تو امریکا جیسا ہمارا ایک اعتبار سے طفیلی ملک بھی ہمیں کبھی کبھی آنکھیں دکھانے لگا ہے باوجود اس کے کہ ہمارے بغیر وہ دہشت گردی کی عالمی جنگ اور افغان جنگ میں کچھ حاصل نہیں کر سکتا تھا نہ ہی کر سکتا ہے۔
حکیم سعید صاحب شہید فرمایا کرتے تھے کہ سورہ مبارکہ” الرحمان” میں اللہ تعالی نے جتنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے، پاکستان کو اس سے زیادہ نعمتوں سے نوازا ہے، کیا کمی ہے ہمارے پاس، ہر طرح کے جغرافیائی علاقے، چاروں موسم،جنگل،دریا ،پہاڑ ، زرخیز ترین زمین ،باصلاحیت اور محنتی عوام ، ہر شعبے میں ایسا ٹیلنٹ کہ وقتا فوقتا اس ٹیلنٹ کی چمک سے ساری دنیا کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، ہاں مگر نہیں ہے تو بس ایک ملک سے محبت کرنے والی،عوام الناس کے لئے سوچنے والی اور اپنے عزم و اخلاص سے ملگ کو آگے لے کر جانے والی قیادت نہیں ہے۔۔ اگر موجودہ قیادت اس کی دعوے دار ہے تو کچھ عملی ثبوت دے صرف باتیں اور وعدے سنتے سنتے تو زمانے بیت گئے ،اب تو مفلسی ۔بے روزگاری بد امنی اور دیگر گوناگوں مسائل کے اندھیرے میں بھٹکتی یہ قوم اسے صبح کے انتظار میں ہے جو جو بقول فیض صاحب شب گزیدہ اور داغ داغ اجالوں سے مبرا ہو،جانے وہ کب آئے گی۔آئے گی بھی کہ نہیں۔۔(خرم علی عمران)۔۔