mulk 3c par chal rha hai

جانے والوں کے نام۔۔

تحریر: مظہر عباس۔۔

سال 2020میں موت کا راج رہا۔ کئی ایسے جانے والے چلے گئے جن سے کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ کسی کے ساتھ صحافت کی تو کسی کے ساتھ سیاست کی، جی چاہتا ہے کہ ان کو یاد کرکے کچھ پرانی یادیں تازہ کروں۔ابھی سال 2020شروع ہی ہوا تھا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فخر الدین جی ابراہیم 91برس کی عمر میں انتقال کرگئے شاید ہماری نئی پود نے فخرو بھائی کا بحیثیت چیف الیکشن کمشنر کردار 2013کے الیکشن کے حوالے سے متنازع دیکھا ہو مگر یہ بھی شاید پہلی مثال تھی جب کسی شخص نے عہدہ قبول کرنے سے پہلے ہی اپنا استعفیٰ دے دیا ہو کہ میں الیکشن کے بعد یہ عہدہ چھوڑ دوں گا۔وہ ان چند ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے پی سی او کے  تحت جنرل ضیاء الحق کا آرڈر ماننے سے انکار کیا اور حلف نہیں لیا۔ یہی نہیں جب وہ 1988میں سندھ کے گورنر بنے تو سی پی ایل سی جیسا ادارہ قائم کیا۔ 1990میں جب سابق صدر غلام اسحاق خان نے حکومت برطرف کی تو فخرو بھائی نے سندھ اسمبلی معطل کرنے سے انکار کردیا، انہوں نے دوبار بےنظیر بھٹو کی حکومت میں استعفیٰ دیا۔

صحافی ادریس بختیار صاحب اور ان کی وسپا پر کوئی دس بارہ سال رپورٹنگ کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہر میں قبروں اور لاشوں کا انبار لگا رہتا تھا، کون کون سے واقعات تھے جو ہم نے کور نہیں کیے؟ ادریس صاحب کا انتقال اس سال مارچ کو ہوا۔ 75سال کی عمر میں بھی عملی صحافت سے وابستہ رہے۔

عبدالحمید چھاپرہ صاحب کا انتقال میری اہلیہ کے انتقال سے چند روز قبل ہوا۔ کمال ہی شخصیت تھی۔ صحافت بھی بھرپور کی اور سیاست کے بھی مزے چکھے۔ ہمارے اختلافات بھی رہے اور ان کے ساتھ مل کر آزادیٔ صحافت کی لڑائی بھی لڑی۔ انہوں نے جیلیں کاٹیں مگر منہاج برنا اور نثار عثمانی سے رشتہ قائم رہا۔ ان کی کئی تصانیف ہیں جن میں سب سے دلچسپ، کہانی کفن چور حکمرانوں کی، خاصی مشہور ہوئی۔ وہ کراچی پریس کلب کے پانچ سال صدر رہے اور شاید کئی سال اور رہتے مگر اس وقت تمام گروپوں کے لوگوں نے اس رجحان کو مناسب نہیں سمجھا۔ میں تو اس وقت ایک جونیئر ممبر تھا مگر مجھے یاد ہے کہ YMCAکےہال میں ہونے والے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا اور آئینی ترمیم کے ذریعہ پابندی لگادی گئی کہ کوئی عہدہ دار سال دوسال بعد تیسرے سال الیکشن نہیں لڑ سکتا۔

احفاظ الرحمٰن نہ صرف اچھے ٹریڈ یونین لیڈر بلکہ کئی کتابوں کے مصنف بھی رہے، وہ ان چند صحافیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کئی چینی تصانیف کا ترجمہ اردو زبان میں کیا۔ وہ غصے کے ذرا تیز تھے مگر میں نے جتنا وقت ان کے ساتھ یونین میں گزارا، وہ تاریخی رہا۔اجلاس میں وقت پر پہنچ کر بہت سے صحافیوں کو حیران کردیتے۔ احفاظ بھائی نے آخری برسوں میں کلب آنا بند کردیا تھا۔یونین سے بھی دور رہنے لگے تھے مگر جب 2007کو کچھ لوگ میری گاڑی پر لفافے میں گولیاں رکھ کرگئے تو انہوں نے کلب پہنچ کرمیرے کاندھے پرہاتھ رکھ کرکہا، ہمت نہیں ہارنی میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ اپریل 2020میں وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے مگر جب بھی اس ملک میں آزادی صحافت کی بات ہوگی تو اُن کا نام اور کام یادرکھا جائے گا۔

قیصر محمود بھی بس مختصر علالت کے بعد اچانک ہی چلے گئے۔ انہوں نے کئی اخبارات اور غیرملکی ریڈیو چینلوںکے لئے کام کیا ۔ آخری برسوں میں جیو کے ایڈیٹوریل بورڈ میں رہے، مالی پریشانیوں کے باوجود بھی اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھا۔وہ کراچی پریس کلب کے ان چند لوگوں میں سے تھے جن کا ہمیشہ موقف رہا ’’بھیک مانگنے سے بہتر ہے اپنی ضروریات کم کرو‘‘۔ اس پر انہیں ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر بات پر غور کریں تو کیا یہ غلط بات تھی؟ جنوری 2020میں میں نے گھر بدلا تو وہ قریب ہی رہتے تھے میں اکثر ان کو دفتر کے لئے ساتھ لے جاتا۔ بھائی بیمار ہوا تو دن رات اسپتال میں خدمت کی مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسی دوران ان کو خود بھی کمر میں درد محسوس ہونے لگا۔ بس پھر اسپتال جاکر واپس نہ آسکے۔

ارشد وحید چوہدری اور طارق محمود سے بہت زیادہ قربت تو نہیں رہی کیونکہ دونوں اسلام آباد میں تھے اور میں کراچی ۔ البتہ کچھ سال اسلام آباد میں کام کرنے کے دوران طارق کو زیادہ جاننے کا موقع ملا۔ اس کو بہت محنتی صحافی پایا۔ ایک بار مجھے سابق وزیر اعظم کے ساتھ دورے کی دعوت ملی تو میں نے طارق کو بھیج دیا۔اس دن وہ بہت خوش تھا۔ میں نے کہا جو لوگ رپورٹنگ کرتے ہیں ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ ارشد ان سب میں شاید سب سے جونیئر تھا۔ ’’خبر‘‘ اس کے پاس ہوتی تھی اور صحافت میں یہ سب سے اہم بات ہوتی ہے۔ ’’کورونا‘‘2020کی واحد خبر رہی۔ لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوئے۔ ارشد کے پاس دینے کو یہ خبر بھی موجود تھی کہ اسے کورونا ہو گیا ہے۔ اسپتال سے طارق کی طرح وہ بھی واپس نہ آسکا۔

سیاست میں سابق وزیراعظم ظفر ﷲ جمالی اور میرے دوست حاصل بزنجو کے جانے سے بلوچستان معتدل سیاست دانوں سے محروم ہوگیا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن، سابق مئیر نعمت ﷲ خان بااصول اور باکردار لوگ تھے۔ بڑی یادیں چھوڑی ہیں۔

اسی طرح دسمبر جاتے جاتے معمر سیاست دان شیر باز مزاری کو بھی لے گیا۔ وہ شاید اس نسل کے آخری لوگوں میں سے تھے جنہوں نے 1973کے آئین پر آزاد گروپ کے سربراہ کے طور پر دستخط کیے اور اس کی تشکیل میں حصہ لیا۔ سچ بولوں تو 2020اداس کر گیا، ﷲ ان سب کی مغفرت کرے، یہ سب خوش قسمت لوگ تھے صاف ستھری صحافت اور سیاست کرگئے۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔

hubbul patni | Imran Junior
hubbul patni | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں