camera ko dekh kar muskuraden

جامعہ کراچی سے بلدیہ عظمیٰ تک

تحریر: عادل علی

سن 2007 کی بات ہے ایک طالب علم جامع کراچی کے سلور جوبلی گیٹ پر ایڈمیشن فارم جمع کرانے کی لائن میں صبح سات بجے سے کھڑا ہے دیگر سینکڑوں امیدواروں کے ساتھ۔

کوئی آٹھ دس لڑکوں پر مشتمل کچھ لوگوں کا دستہ آتا ہے اور سب کو ایک ایک فارم تھماتا جاتا ہے کہ ایڈمیشن فارم کے ساتھ یہ فارم ضرور جمع کروانا ہے. لہجہ کافی رعبدار تھا۔

وہ کاغذ کچھ اور نہیں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم میں شمولیت کا فارم تھا۔

ایڈمیشن کاونٹر پر پہنچے تو ساتھی بھائی اپنے فارمز کا جتھا لیے بیٹھے تھے جو کہ خود ہی امیدواران کے فارمز کے ساتھ نام لکھ کر نتھی کیے جارہے تھے۔ یہ تو رہا قصہ مختصر دو جماعتوں کا کیونکہ یہ دو جماعتیں ہی قابل ذکر تھیں باقی تو ان دنوں طلبہ تنظیموں کا اتنا گل غپاڑہ تھا کہ بس۔۔ ڈگری پروگرام میں تو جگہ نہ بنا پائے کہ ہمیں کسی کا آشیر باد حاصل نہ تھا مگر ڈپلومہ پروگرامز میں پھر بھی داخلہ مل ہی گیا۔

جامعہ کراچی میں قدم رنجہ فرمایا تو حقیقی معنوں میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی ہیبیت ناکی کا اندازہ ہوا۔ ہم ٹھہرے زرا جمہوریت زدہ لوگ تو پہلے ہم  نے پی ایس ایف کے دوستوں کو تلاش کرنا چاہا اور رابطہ دفتر پر حاضری دینا چاہی جوکہ پی ایس ایف کے دفتر تک پہنچنے سے پہلے جسقم  کے دفتر کی زیارت کرتے ہی خواہش دم توڑ گئی۔الغرض جماعت کا ہولڈ انتظامیہ پر تھا اور اے پی ایم ایس او یونیورسٹی پر راج کرتی تھی ان کے سائے تلے کئی اور فرقہ واریت پر مبنی جماعتیں اپنا کام چلاتی تھیں۔

کراچی میں ایم کیو ایم کی موجودہ صورتحال دیکھیں اور جماعت اسلامی کی بھی تو آج بھی جماعت اسلامی آپ کو شہر اور شہری انتظامیہ کی جڑوں پر قابض نظر آئیگی جو کہ ایم کیو ایم کا زور ٹوٹتے ہی پھر سے زور پکڑنے لگی۔ جماعت اسلامی نے اپنے لوگ واٹر بورڈ بلدیہ عظمیٰ کے الیکٹرک بلڈنگ کنٹرول سمیت ہر اس ادارے میں فکس کیے جہاں سے شہر کی مشینری پر اثر انداز ہوا جا سکے جبکہ ایم کیو ایم کے شپاٹر محض ساتھی بھائی و ٹی ٹی انٹی میں لگائے پھرنے سے ہی ہوا میں اڑتے رہے۔ ڈومیسائل اور کوٹہ سسٹم کے مسلسل راگ الاپنے کے سبب دونوں جماعتوں نے نہ سندھیوں کو شہری انتظامیہ میں جگہ دی نہ کسی اور قوم کو بلکہ ہمیشہ مظلومیت کا رونا بھی روتے رہے۔

جماعت اسلامی کی شہر میں انفراسٹرکچر کی تباہی کو ایم کیو ایم  نے کیش کرنے میں کسر نہ چھوڑی تو پیپلزپارٹی کے زیر اثر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران نے بھی ہائی رائیز اور فلور پلان اپروو کرنے کی مد میں بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے الغرض کے سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کراچی کو کتھے کے ساتھ خوب چونہ لگایا ہے اور اپنی سیاست چمکانے کے ساتھ مال بھی بنایا ہے۔

جماعت نے شہری ڈھانچے اور انتظامی اداروں سے مال بنایا ایم کیو ایم کی چائنہ کٹنگ کی بات کریں تو آدھا کراچی صائمہ بھابھی میرا مطلب بابر غوری کا ہے جبکہ سندھ حکومت کی انتظامیہ نے اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا پر من و عن عمل کرتے ہوتے لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔

امتاد زمانہ پیپلزپارٹی کو عقل آگئی اور ایک متحرک وزیراعلیٰ لانچ کیا جبکہ وہ ایم کیو ایم جسے لگتا تھا کہ طاقت کا طوطی تاحیات ایسے ہی بولا کریگا ان کا وقت بھی گیا اور جماعت اسلامی جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک ہی دین کے مطابق تین ملکوں میں مختلف سیاست کرے ایک ہی سیاسی مدے و منشور کے مطابق پاکستان کے ہر صوبے و ضلعے میں الگ طرز کی سیاست کرے اس کی جڑیں کراچی کے سسٹم میں مظبوط ہوتی گئیں اور نتیجہ کل بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ہونے والے پہلے اجلاس میں حاضر ہے۔۔

پیپلزپارٹی کے نوجوان میئر مرتضی وہاب کے لیے جماعت اسلامی کا گھاگ سیاستدان حافظ نعیم الرحمٰن ایک ٹف ٹارگیٹ ثابت ہو رہا ہے۔

حافظ صاحب تان سین کی طرح عوام کے تار ہر طرح سے چھیڑنے میں مہارت رکھتے ہیں جبکہ ایم کیو ایم جسے بلاشرکت غیر کراچی پر اقتدار کی عادت تھی وہ خاموش تماشائی بئی ہوئی ہے اور پیپلزپارٹی صوبے و وفاق میں حکومت ہوتے ہوئے بھی جماعت اسلامی کی بوتل سے نکلے جن کے آگے بے بس ہے۔۔

جامعہ کراچی سے بلدیہ عظمیٰ تک جماعت اسلامی کی روش نہ بدلی ہے نہ ہی میں زندگی بدلتا دیکھ پاونگا شاید مگر۔۔ سیاست میں منافقت کا یہ معیار ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔جیالے میئر کو پہلے ہی بار میں حافظ جی نے حلوہ سمجھ کر رگڑ ڈالا ہے۔۔ ایم کیو ایم ان سے قدرے بہتر حریف تھی کہ بیگم کی طرح روٹھ کر چند دن بعد میکے کی گالیاں سن کر سسرال لوٹ آتی تھی مگر جماعت والے جنہوں نے تا عمر سیاست ہی دھرنوں کی کی ہے یا جنہیں قیام میں ہی پریشر پوائنٹ کے طور پر لایا گیا تھا۔۔وہ اب اور کیا کیا کریگی یہ آنے والا وقت بتاتا جائیگا۔۔(عادل علی)۔۔

(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں