تحریر: اورنگزیب شہزاد۔۔
صحافی دوستوں اور قابل احترام سینئرز اور محبت کرنے والے جونیئر سے درخواست ہے کہ قیمتی ٹائم سے وقت نکال کر ضرور پڑھیں۔۔
آج کل سندھ حکومت کی جانب سے جعلی اخبارات کیخلاف کارروائی کا بڑا چرچا ہے، نیوز اسٹالز چیک کیئے جائیں گے اور ہر 15 دن بعد رپورٹ پیش کی جائے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اخبارات کو حکومت کی جانب سے ڈیکلیریشنز دیئے گئے ہیں وہ جعلی کس طرح ہیں۔
جواب یہ ہے کہ زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات سے کرپٹ حکمرانوں کو کوئی خاص تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ انہیں سرکاری اشتہارت دیکر رام کرلیا جاتا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کم پڑھے جانے والے اخبارات کے مالکان محدود وسائل کے باعث سرکاری اداروں اور مخصوص اسٹالوں تک ہی اخبار پہنچانے کی سکت رکھتے ہیں لیکن اکثریت میں معاشرتی سدھار کا جذبہ دولتمند اخبار مالکان سے کہیں زیادہ ہے اور اگر مشاہدہ کیا جائے تو “ڈمی” کا الزام ہی اس لیئے لگتا ہے کہ بدعنوانیوں، بداعمالیوں، عہدے واختیارات کے ناجائز استعمال کی نشاندہی زیادہ تر کم پڑھے جانے والے اخبارات میں ہی زیادہ ہوتی ہے۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ آڈٹ بیورو سرکولیشن سے تصیدیقی سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے بھی خوب دھکے کھلانے کے بعد تعداد کے حساب سے لاکھوں روپے میں رشوت طلب کی جاتی ہے
کیا بغیر ABC سرٹیفکیٹس کے شائع ہونے والے اخبارات جعلی ہیں میرے نزدیک تو بالکل نہیں بلکہ اشاعت کی تعداد مقرر نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ہر نیوز اسٹال پر ہونا بھی ضروری نہیں
تمام اخبارات کو چیک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آڈٹ بیورو سرکولیشن میں رجسٹرڈ تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیٹیگریز تشکیل دے کر فہرست بنائی جائے اور اس کے حساب سے چیکنگ کی جائے اور جو اخبارات آڈٹ بیورو سرکولیشن سے سرٹیفائیڈ نہیں ہیں انہیں اسٹال چیکنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے جیسے کہ کم پڑھے جانے والے اخبارات سے منسلک صحافیوں کو حکومتی مراعات سے محروم رکھا جاتا ہے
اگر حکمران نظام درست کریں اور اداروں میں بدعنوانوں کا احتساب کیا جائے تو یہ تکلیف ختم ہوجائے لیکن یہاں تو “آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے” کے مصداق سب حصہ وصولی میں مصروف ہیں اور اپنی عیاشیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے “گڈ گورننس” کے قیام کے بجائے بدعنوانیوں کو تحفظ دینے کیلئے منطقی فیصلے کیئے جاتے ہیں۔خیر اندیش،(اورنگزیب شہزاد)۔۔