jaali asar o sokh social media ki tasweeri dhons

جعلی اثر و رسوخ – سوشل میڈیا کی تصویری دھونس

تحریر: ندیم آرائیں۔۔

میں ایک دن اپنے دوست ایس ایچ او کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک اس کے موبائل پر ایک کال آئی۔ اس نے فوراً فون اٹھایا اور کہا، ’’جی سر، اچھا سر، میں دیکھ لیتا ہوں۔‘‘

میں نے حیرانی سے پوچھا، ’’خیر تو ہے؟‘‘

وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ’’بھائی، ایک میڈیا والا ہے، خود کو وزیر داخلہ کا قریبی بتا رہا ہے۔‘‘

میں نے کہا، ’’دکھاؤ، کون ہے؟‘‘

ایس ایچ او نے جیسے ہی اپنے واٹس ایپ پر اس کی ڈی پی دکھائی، میں فوراً پہچان گیا۔ یہ وہی خودساختہ صحافی تھا جس نے کسی سرکاری پروگرام میں وزیر داخلہ کے ساتھ تصویر کھنچوا لی تھی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’قریبی کہاں، یہ تو دور دور تک وزیر داخلہ کو نہیں جانتا!‘‘

میں نے ایس ایچ او نے پوچھا، ’’ویسے چاہ کیا رہا ہے؟‘‘

کہنے لگا، ’’یہ کہہ رہا ہے کہ آپ نے جو ابھی ماوا فروش پکڑا ہے، وہ میرے عزیز کے جاننے والا ہے، اسے چھوڑ دو۔‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اسے کہو کہ وزیر داخلہ صاحب سے کہہ کر تمہیں کوئی اچھا سا تھانہ دلوا دیں، پھر دیکھو کیسے بھاگتا ہے!‘‘

ایس ایچ او نے بالکل یہی جواب دیا، اور اس کے بعد اس ’’رپورٹر‘‘ نے کبھی دوبارہ ایس ایچ او کا فون نہیں اٹھایا۔

یہ ایک عام مثال ہے کہ کس طرح لوگ کسی اہم شخصیت کے ساتھ اتفاقیہ تصویر کھنچوا کر اسے اپنے اثر و رسوخ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ایسے لوگ سوشل میڈیا پر اپنی پروفائل تصویروں کے ذریعے دوسروں پر دھونس جماتے ہیں اور غیر قانونی یا ناجائز کام نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسے افراد کسی تقریب، اجلاس، یا عوامی مقام پر کسی سینئر پولیس افسر یا سیاستدان کے ساتھ تصویر کھنچوا لیتے ہیں اور پھر یہی تصویر واٹس ایپ اور فیس بک پروفائل پر لگا کر اپنے آپ کو بااثر ظاہر کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے لوگ ان کے دعووں کو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کے کام کرنے لگتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ان کی ان شخصیات سے کوئی خاص جان پہچان نہیں ہوتی۔

یہ جعلی بااثر لوگ اکثر پولیس، سرکاری دفاتر اور دیگر اداروں میں جا کر اپنی “بڑی پہنچ” کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ وہ اہلکاروں پر دباؤ ڈال کر کہتے ہیں، ’’فلاں افسر میرا قریبی ہے، اگر میرا کام نہ ہوا تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔‘‘ بعض اہلکار اس دھوکے میں آ کر ان کے ناجائز کام بھی کر دیتے ہیں۔

  اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر تصدیق کے ان جعلی بااثر افراد کی بات ماننے لگیں، تو نظام کمزور ہو جاتا ہے۔

 کئی بار یہ لوگ سادہ لوح شہریوں کو بھی لوٹتے ہیں اور ان سے مختلف حیلے بہانوں سے پیسے بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 جب لوگ بغیر کسی مستند حیثیت کے اپنا اثر و رسوخ دکھا کر کام نکلوانے لگیں، تو میرٹ اور شفافیت متاثر ہوتی ہے۔

کسی بھی شخص کی محض تصویر دیکھ کر اس کے اثر و رسوخ پر یقین نہ کریں، بلکہ اس کی تصدیق کریں۔سرکاری افسران اور دیگر بااثر شخصیات کو چاہیے کہ وہ ایسے دھوکہ بازوں کے خلاف سخت کارروائی کریں، تاکہ ان کے نام کا غلط استعمال نہ ہو۔

پولیس اور دیگر ادارے ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کریں جو جعلی تعلقات کے ذریعے ناجائز فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر کوئی اپنی پہنچ اور اثر و رسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ ہم حقیقت اور فریب میں فرق کرنا سیکھیں۔ محض کسی کے ساتھ تصویر کھنچوانے سے کوئی کسی کا قریبی ساتھی نہیں بن جاتا۔ اگر ادارے اور عوام اس حقیقت کو سمجھ لیں، تو ایسے دھوکہ بازوں کے اثر کو زائل کیا جا سکتا ہے۔(ندیم آرائیں)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں