تحریر: وارث رضا۔۔
کسے علم تھا کہ برصغیر کے شاہی مزاج دربار کے شاہی خزانے کی چابی کے رکھوالوں کے ذہین مزاج مظفر نگر کے گائوں ’’سنبھالیڑہ ‘‘ کا ایک سپوت اپنے اجداد کے شاہی جاہ جلال کو تج کرکے بالک پن میں بھی اپنے پرکھوں کی طرح انگریز سامراج کے ظالمانہ کردار اور رویے پر احتجاج اور انسانی وقار کی سر بلندی کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی کی سوچ پروان چڑھائے بر صغیر کی انگریزی تقسیم کا شکار ہوکر اپنے اجداد کی زمین کو چھوڑ کر، آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے پاکستانی وسیب کی ریگزار اور تپش آور سر زمین ’’ملتان‘‘ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے گا، ابتلا اور مشکلات کا مرد آہن بن جائے گا، محنت کی قدر کا رسیا ہوگا، جہد کی قدر میں وقار تلاش کرنے کا خوگر ہوگا، رزق کے حصول میں لکھنوی تہذیب و شائستگی سے مزین ماں کے ہاتھ میں پڑتے ہوئے چھالے ڈالنی والی ’’چھالیوں‘‘ کا ٹوکرا سنبھالے ملتان کی حدت کی پرواہ کیے بغیر ’’کٹی ہوئی چھالیاں‘‘ طلب گاروں تک پہنچانے میں کسی بھی قسم کا تردد نہیں کرتا ہوگا، پرکھوں کے خزانے کے رکھوالوں مانند غرور و تکبر کا نشان نہ ہوتا ہوگا، ماں کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر سونے والا سکھی زندگی کے لیے ’’تعلیم‘‘ کو ہی ترقی کا زینہ سمجھتا ہوگا، تنگ دستی اور جھونپڑ پٹی کے محل کو ہی آسائش کا مسکن سمجھتا ہوگا،ماں کی آنکھوں میں ’’باشعورتعلیم یافتہ ‘‘ بننے کے خواب کی علمی تعبیر ہوگا،اور کسی بھی ظلم و ستم پرخاموش رہنے والا نہ ہوگا۔
کون جانتا تھا کہ دھان پان سے اس طالبعلم کو مزدوروں کے حقوق اور ان کے حقوق کی آزادی کا اتنا خیال تھا کہ،وہ جھونپڑ پتی میں ماں کے انتظار کو بھی اکثربھول جایا کرتاتھا،ہاتھوں میں کتابیں تھامے، وہ کالونی مل ملتان کے مزدروں سنگ ’’سرمایہ دار‘‘ کے ظلم و جبر پر احتجاج میں شامل ہوجایا کرتا تھا،پھر اچانک اس نے اپنے دیکھنے اور سننے کی صلاحیتوں کو زبان دینے کا ہنر سیکھا،اور آزادیٔ اظہار کے ترجمان ’’الفتح‘‘ میں کالونی مزدور مل ملتان کے مزدوروں کی بپتا لکھنا شروع کی تو ایک روز اطلاع آئی کہ جبر کی آنکھ میں کھٹکنے والا پاکستان کا سب سے کمسن صحافی’’ناصر زیدی‘‘ مزدور حقوق کی رپورٹنگ کرنے کا مجرم ٹہرا اور دھر لیا گیا ہے۔
مجال کہ جھونپڑ پتی کی معاشی ضرورتوں کے جرات مند’’ناصر زیدی‘‘ کو حوصلے اور ہمتیں دلانے والی ’’لکھنوی ماں‘‘ کے پائے استقامت میں کہیں لغزش آئی ہو،چھالیہ کترتی ماں آزادیٔ صحافت کے کمسن قیدی ’’ناصر زیدی‘‘پر نہ صرف فاخر تھی بلکہ وہ صحافت کی آزادی کی کوشش میں اپنے بیٹے کا حوصلہ و جرات تھی،اس کی طاقت تھی ،اظہار کی پوری قوت کے ساتھ جبر کی آنکھ میں آنکھ ڈالے کھڑی تھی،بیٹے کے ارادے اور حوصلوں کی استقامت نے جبر کو شرمندہ کیا اور ’’ناصر زیدی‘‘صحافت و شہری حقوق کی جدوجہد میں سر خرو ہوا۔مگر جناب! جبر اپنے خونین ارادوں اور انسانی حقوق کی پامالی پر کب رکتا ہے۔
عوام کے جمہوری حقوق چبانے کے بعد آمر جنرل جیا کے جبر کا ظلم بڑھنے کی جانب رواں دواں تھا، شہری آزادیوں کو دیواروں میں چنوایا جا رہا تھا،ایسے میں’’ آزادیٔ صحافت‘‘ کا قافلہ’’منہاج برنااور نثار عثمانی‘‘ کی قیادت میں اپنی احتجاجی چال سے ملک کے طول و عرض خراماں خراماںچل رہا تھا،اظہار کی آزادی اور صحافیوں کے حوصلوں کو شکست دینے کے لیے ’’صحافی برادری‘‘ میں دراڑ ڈالنے کے لیے میاں طفیل کی خدمات حاصل کی گئیں،جنہوںنے آمر جنرل ضیا کی شوری کے اسلامی و شرعی وزیراطلاعات محمود اعظم فاروقی کے ذریعے ’’پی ایف یو جے‘‘ میں ’’دستوری گروپ بنوایا۔
آمرجنرل ضیا الحق اور سیکریٹری اطلاعات جنرل مجیب کا خیال تھا کہ وہ ضیا کے سیاہ ترین دور کے مظالم اور اظہار رائے پر مارشلائی پابندیوں کے خلاف چلنے والی ’’آزادیٔ صحافت‘‘ کی تحریک کو ناکام بنا دیں گے،مگر ’’دستوری گروپ‘‘ کے مفاداتی اور صحافت دشمن کوششوں میں اظہار رائے کے سرفروش رہنما ’’منہاج برنا اور نثار عثمانی‘‘ کے سپاہی نہ قید سلاسل سے خوف زدہ ہوئے اور نہ ہی ’’ضیائی کوڑے‘‘ ناصر زیدی کے پائے استقامت میں کوئی جنبش لا سکے،اظہار رائے کی پابندیوں کے دنوں کو سپرد تاریخ کرتے ہوئے ناصر زیدی ’’آزادیٔ صحافت کی جدوجہد کے ستر سال ‘‘نامی دستاویزی کتاب میں لکھتے ہیں کہ۔۔انیس سو اٹھہتر کا ضیاالحق مارشل لاء اپنی فسطائی فرعونی طاقت کے ساتھ ملک پر سایہ فگن تھابولنے،لکھنے اور اظہار رائے کی آزادی صلب کر لی گئی تھی، ہر طرف ہو کا عالم تھا،جو بولتا تھا اٹھا لیا جاتا تھا،فورا سزا سنادی جاتی تھی،ایک سال قید دس کوڑے،اگلے لمحے سزا پر عمل ہوجاتا تھا،جب آواز خلق خاموش نہ ہوسکی،لب آزاد رہے تو سندھ اور پنجاب میں اخبارات اور جرائد بند کر دیئے گئے،سیکڑوں صحافی بر طرف کر دیئے گئے،اخبارات پر سنسر شپ نافذ کر دی گئی۔
پاکستاں فیڈرل یونین آف جرنلٹس نے پابندیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کیا،لاہور تحریک کا مرکز بنا،مسلسل 60روز تک گرفتاریاں دی گئیں،تحریک میں شدت اور عوام کی بھرپور شرکت سے حکومت کے ایوان لرز گئے،13مئی کا دن،لاہور کی گرمی اپنے جوبن پر تھی، ہمیں کیمپ جیل سے سینئر صحافیوں کے ہمراہ سمری کورٹ لے جایا گیا،صحافیوں کا گروپ زنجیروں میں جکڑا گھنٹوں دھوپ میں عدالت کی سماعت شروع ہونے کا انتظار کرتا رہا، ہمیں عدالت میں طلب کیا گیا،میں ،خاور نعیم ہاشمی،اقبال جعفری اور فتح محمد میمن ہاتھ میں ہتھکڑیوں کے ساتھ پیش ہوئے، جج نے ہمیں اوپر سے نیچے گھورا اور ’’رعب دار‘‘ آواز میں بولا’’تو تم صحافی ہو،تم نے مارشل لا قانون کی خلاف ورزی کی ہے،ہم نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ستھ یک زبان ہوکر کہا’’جی ہم مارشل لا کو نہیں مانتے،تم لوگوں نے آئین کو پامال کیا ہے،یہ سنتے ہی جج سخت غصے میں ہم سے مخاطب ہوا’’تم صحافی اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو،جب جیل میں مشقت کرو گے تو پتہ چل جائے گا،ابھی وہ حلف لینے لگا تھا کہ میں نے اسے روکتے ہوئے کہا’’جج صاحب یہ ڈرامہ بند کریں،ہم آپ کی عدالت کو تسلیم نہیں کرتے،آپ نے سزا دینی ہے سو وہ سنا دیں‘‘ جج نے مجھے گھورا اور گویا ہوا۔
تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ہم نے تم جیسے بہت سارے لوگوں کو سیدھا کیا ہے،تم کیا ہو؟‘‘خاور نعیم ہاشمی کے بولنے پر جج غصے میں بولا۔ سینئر صحافی ناصر زیدی کی آزادیٔ اظہار اور پریس کی آزادی کی تحریک میں مارشل لا ادوار میںجرات اور استقامت کا مظاہرہ کرنے پر گزشتہ دنوں کراچی میں ’’احفاظ الرحمن لائف اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ دیا گیا، گزشتہ چار برس سے مہناز الرحمن اور رمیز رحمان کی کاوشوں سے ’’احفاظ الرحمن یادگاری کمیٹی‘‘ یہ ایوارڈ صحافت اور اظہار کی آزادی اور جمہوری قدروں کے استحکام میں نمایاں کارکردگی حاصل کرنے والے صحافیوں کو دیا جاتا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔