تحریر: مظہر عباس
ہائبرڈ وار اور ’’جھوٹی خبروں‘‘ کا تدارک صرف اور صرف ایک مضبوط اور طاقتور آزاد میڈیا سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی 73سالہ تاریخ گواہ ہے کہ صحافیوں اور مدیروں کی تنظیموں نے ہمیشہ ایک آزاد اور ذمہ دارانہ صحافت کی لڑائی لڑی ہے اور اب بھی لڑ رہے ہیں۔ اس کا جواب اگر صحافیوں میں خوف ہراس پھیلانے، آوازوں کو دبانے اور قیامِ پاکستان سے بھی پہلے قائم میڈیا ہائوس پر دبائو کی صورت میں آئے گا تو اس سے نقصان صرف اور صرف صحافت کا ہی نہیں ہوگا۔
جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اور وہ کبھی نہ کبھی بےنقاب ہوتا ہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے عراق کی جنگ میں دیکھا کہ کس طرح امریکی میڈیا نے ایک ماحول بنایا، ’’عراق کے پاس کیمیائی ہتھیاروں‘‘ کے حوالے سے۔ اس وقت بھی کچھ صحافی یہ لکھ رہے تھے کہ یہ جھوٹ ہے، ’’فیک نیوز‘‘ ہے۔ بعد میں امریکہ کے ایک بڑے اخبار نے اپنے پڑھنے والوں سے معافی مانگی۔
کسی کی بھی خبر سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے خبر جھوٹی ہو، کسی کے کہنے پر لکھی گئی ہو یا صحافی ’’استعمال‘‘ ہو گیا ہو۔ ایسے میں قانون کو بہتر بنائیں، خاص طور پر ہتکِ عزت کے قانون کو مگر اس پر غداری کا الزام لگانے کے لئے اس کو عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا۔ کسی غلط خبر کا جواب غلط خبر نہیں ہوتی۔ چند ایک لوگوں سے کالم لکھوا کر اور صحافیوں کو آپس میں لڑوا کر وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر خبر اپنی جگہ قائم رہے گی۔
جنگ اور ڈان گروپ پاکستان کے دو بڑے صحافتی ادارے ہیں، پچھلے چند برسوں سے ان کے ساتھ جو سلوک برتا جارہا ہے اس سے صحافت کی کوئی خدمت نہیں ہورہی۔بہت کوشش کرلی اور شاید اب بھی کی جارہی ہے دبائو بڑھانے کے لئے لیکن اگر عوام کا اعتماد اب بھی موجود ہے تو پھر بہتر ہے کہ چیزوں کو بہتر کیا جائے۔ جھوٹی خبروں کے ذریعہ کنفیوژن پھیلانا اس لئے بھی آسان ہو گیا ہے کہ غیرصحافیوں کی ایک کھیپ بھر دی گئی ہے جن کے ذریعہ ایک طرف صحافیوں کی ساکھ متاثر کی جارہی ہے تو دوسری طرف کرپشن فروغ پا رہی ہے۔
سب سے زیادہ جھوٹی خبریں سالہا سال سے منسٹری آف انفارمیشن کے ذریعہ، فیک ناموں سے کالم لکھوا کر پھیلائی جاتی رہی ہیں جس کے لئے ماضی میں ’’سیکریٹ فنڈ‘‘ کا بےدریغ استعمال ہوا۔ اس کو بھی ختم کرنے کا سہرا جناب حامد میر اور کچھ دیگرصحافیوں کو جاتا ہے جو سپریم کورٹ گئے اور 2012میں یہ فنڈ ختم ہوا۔ خواتین صحافیوں کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ باعثِ شرم اور قابلِ مذمت ہے۔صحافت اور سیاست‘‘ کے ملاپ کے معنی ہمارے کچھ دوستوں نے یہ لے لئے کہ آپ جتنے سیاست دانوں اور حکمرانوں سے قریب ہوں گے اتنا فائدہ ہے۔ اس نے اچھی خاصی تعداد میں ابن الوقت صحافیوں کی ایک کھیپ کو بھی جنم دیا۔ بہت سے دوستوں نے جو اپنے وقت کے اچھے مدیر بھی رہے، سیاسی جماعتوں اور حکومتوں میں شمولیت کی حد تک چلے گئے۔ چلیں اگر آپ نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا ہے تب بھی غنیمت ہے مگر کبھی سیاست اور کبھی صحافت والا کھیل قلم کی حرمت کے ساتھ ناانصافی ہے۔ قوانین کی آڑ میں اکثر صحافت پر قدغن لگا دی جاتی ہے۔
سرکاری میڈیا پر کبھی عوام کا اعتماد نہیں رہا اس لئے کہ یہاں سے صرف ’’سب اچھا‘‘ کی خبریں آتی ہیں چاہے معاملات کتنے ہی برے ہوں۔ مدیر کا ادارہ ختم ہونے سے ذمہ دارانہ صحافت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ بہت سے مالکان خود مدیر بن بیٹھے اور توجہ خبر سے ہٹ کر اشتہارات پر چلی گئی۔ اشتہارات پر سرکاری کنٹرول کو حکومتوں نے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اب بھی یہی ہورہا ہے۔ اب تو مداخلت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ میڈیا پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ اس اینکر کو رکھ لیں اور اس کو نہ رکھیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے کئی صحافیوں نے صحافت کی حدود پار کی ہیں۔ ہم سیاست دانوں اور حکمرانوں کے اتنے قریب چلے گئے کہ کبھی انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ الیکشن ملتوی کردیں ورنہ بھٹو جیت جائے گا، کبھی شہباز شریف کے پاس پیغام لے کر پہنچ جاتے ہیں کہ آپ کے بارے میں فیصلہ ہو گیا ہے کہ آئندہ وزیراعظم آپ ہوں گے۔
وہ بھولے بادشاہ بھی کابینہ بنانے ان کے پاس پہنچ گئے ’’ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی /کچھ ہماری خبر نہیں آتی‘‘۔ اب مجھے نہیں پتا کہ ڈاکیے نے غلطی سے بنی گالہ کا پیغام ’’جاتی امرا‘‘ پہنچا دیا یا شہباز صاحب کو ’’ماموں‘‘ بنادیا مگر ہمارے دوست کب تک ڈاکیے کا کام کرتے رہیں گے۔ ہمارے کپتان کو بھی ایسے ہی صحافیوں کا سامنا رہا۔ کچھ بھائی لوگوں نے تو پارٹی کا جھنڈا بھی تھام لیا۔آج وزیراعظم کو یہ محسوس ہورہاہے کہ میڈیا ان کے خلاف اور ان کی کابینہ خوف زدہ ہے۔ ہر حکمران کو تنقید کا سامنا رہا ہے مگر آپ کے اچھے کام بولتے ہیں۔ لہٰذا میڈیا پر دبائو کی پالیسی ترک کردیں۔
بے نظیر بھٹو شہید سے ایک بار میں نے کہا کہ آپ بہت سے صحافیوں پر ایجنسیوں کے لئے کام کرنے کا الزام لگاتی ہیں ۔ اب آپ وزیراعظم ہیں وہ نام معلوم کریں اور فہرست شائع کریں۔ یہ بات 1988کی ہے۔کچھ عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو بولیں، ’’مظہر، ان میں سے بہت سے لوگ ہمارے حق میں بھی لکھتے ہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا، ’’آپ کیوں سمجھتی ہیں وہ آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔ پاکستان میں صحافیوں کی طویل جدوجہد آزادی صحافت، بہتر حالت کار اور اپنے پیشہ سے وفا کے لئے رہی ہے کیونکہ سچ جاننا لوگوں کا حق ہے۔جب یہ صحافی جیل میں تھے تو وہاں سے بھی ہفت روزہ ’’زندان‘‘ نکالا کرتے تھے۔ ویکلی ویو پوائنٹ کے ایڈیٹر ان چیف مظہر علی خان اور دوسرے ساتھی گرفتار ہوئے تو لاہور جیل سے خبریں بھیجتے اور رسالہ وہیں تیار ہوتا۔
ہائبرڈواراچھی صحافت کو دبا کر نہیں جیتی جا سکتی بلکہ طاقتور میڈیا وقت کی ضرورت ہے۔ خدارا صحافت کو اٹھائیں صحافی کو نہیں۔ صحافت اور خبر کی بنیاد سچ پر نہ ہو تو وہ محض ’’کاروبار‘‘ ہے۔ (بشکریہ جنگ)