تحریر: محمود شام
عشق اور سیاست میں محبوب کا دل جیتنا ہی اولیں مقصود ہوتا ہے۔ عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پُر اعتماد خطاب کرکے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل جیت لیے ہیں۔
ان کی ناکامیوں سے برگشتہ ہونے والے ان کے عشاق پھر ان کے گرویدہ ہوگئے ہیں۔ تقریر پاکستان اور کشمیر میں بہت غور سے سنی گئی۔
ایک اک ادا پر مائیں بہنیں بزرگ فدا ہوتے رہے۔ مگر جن طاقتوں کو خطاب کیا جارہا تھا ۔
توجہ دلائی جارہی تھی۔ انہوں نے بھی یہ تقریر سنی۔ کوئی نکات درج کیے۔ ہال میں اس وقت کوئی سربراہ بیٹھا تھا۔ اور کیا امریکہ سمیت دوسرے ملکوں کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے بھی اسے کہیں نمایاں جگہ دی ہوگی۔
یہ تو غیر جانبدارانہ تحقیق ہی بتاسکتی ہے۔ کیا اس تقریر سے اسلامو فوبیا میں کچھ کمی آئی ہوگی۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح سنتے ہی مہذب دنیا کے دعویداروں پر رحم آنے لگتا ہے کہ اکیسویں صدی کی چندھیا دینے والی روشنی میں سینکڑوں یونیورسٹیوں اور بیسیوں تھنک ٹینکوں کے ہوتے ہوئے یہ پڑھے لکھے شدید ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔
امریکہ کی کھلی سوسائٹی نشاۃ ثانیہ اور تحریک احیائے علوم سے مستفید ہونے والا یورپ دونوں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی احساسات میں الجھے ہوئے ہیں۔
ایسے مذہبی عطیاتی ادارے ہیں۔ ٹرسٹ ہیں جو لاکھوں ڈالر خرچ کرکے مسلم دشمن محسوسات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ معاشرے میں بد امنی برپا کرتے ہیں۔
پھر دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں امن اور سلامتی کے خواہاں ہیں۔آج اتوار ہے۔ آپ اپنی اولادوں کے ساتھ بیٹھے ہوں گے گفتگو ہورہی ہوگی۔
عمران خان کی تقریر پر پاکستان ملائشیا اور ترکی کی جانب سے ایک مشترکہ طاقت ور ٹیلی وژن نیٹ ورک شروع کرنے کے خواب پر۔ جس سے اسلامو فوبیا دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مہا تیر محمد۔ طیب اردوان۔ جدید عالم اسلام کے درخشندہ ستارے ہیں۔ اگر چہ کچھ ماند پڑ رہے ہیں لیکن تاریخ انہیں خراج تحسین پیش کررہی ہے کہ دونوں نے اپنے ملک کی معاشی اور معاشرتی حالت بہتر کی ہے اور جمہوریت کا دامن بھی نہیں چھوڑا ہے۔
یہ ذمہ داری تو او آئی سی کی تھی۔ اس کے چارٹر میں یہ اقدام شامل بھی تھا۔ ایک اسلامی نیوز ایجنسی قائم کی گئی تھی۔
اس کے بعدمشترکہ ریڈیو اور ٹی وی کی طرف جانا تھا۔ لگتا ہے کہ عرب دنیا اس ذمہ داری سے الگ ہوگئی ہے۔
جس نے اسلام سے سب سے زیادہ مالی اور سیاسی فائدے اٹھائے ہیں۔ نائن الیون جس کے بعد اسلامو فوبیا زیادہ تیز ہوا ہے۔ اس میں بھی عرب ملکوں کے نوجوان ہی پیش پیش تھے۔ کوئی پاکستانی ۔ کوئی ترک۔ کوئی افغان۔ کوئی ملائشیائی نہیں تھا۔ لیکن اس کا خمیازہ سب سے زیادہ افغانستان اور پاکستان کو بھگتنا پڑا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسلامو فوبیا کا مقابلہ صرف ایک ٹی وی سے کیا جاسکتا ہے۔ ٹی وی بھی جو ان تین ملکوں کی اطلاعات کی وزارتیں چلائیں گی۔
جو اپنی اپنی اپوزیشن کو بھی موثر انداز میں جواب نہیں دے پاتیں۔ ٹی وی کو تو صرف خبر۔ تجزیہ۔ رپورٹیں نشر کرنا ہوں گی۔ یہ خبریں۔ تجزیے۔ رپورٹیں اور پیکیج تیار کرنے کے لیے تجربہ کار۔ جہاندیدہ رپورٹرز۔ امریکہ۔ یورپ میں ہونے چاہئیں۔ بہت ہی گہری ۔ سنجیدہ تحقیق درکار ہوگی۔
میں ہمیشہ کی طرح یونیورسٹیوں سے اشتراک پر زور دوں گا کہ نہ صرف ان تین ملکوں کی بلکہ اسلامی دنیا کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے درمیان فعال باضابطہ رابطہ ہونا چاہئے۔ مسلمان ملکوں کے علاوہ امریکہ یورپ کے جو جید اسکالرز ہیں۔
ان کے لیکچر بھی ہوں۔ اسلامو فوبیا پر خود امریکہ یورپ میں تحقیق ہورہی ہے۔ زیادہ تر اسے ایک ذہنی مرض قرار دیا جارہا ہے۔ اس کا باقاعدہ نفسیاتی علاج بھی تجویز کیا جارہا ہے۔
تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالی جائے تو غیر مسلموں میں اسلام کا خوف تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ لیکن اسلام کی تعلیمات اور ان پر عملدرآمد نے اس خوف کو دور کیا۔ لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لیتے رہے۔
لیکن جب مسلمان خود اسلام کی تعلیمات اور ان پر عملدرآمد سے دور ہوئے۔ اپنے قبائلی شعائر کو اسلامی شعائر قرار دینے لگے اور دہشت گردی پر اتر آئے۔
اسلامو فوبیا کی متعدی بیماری دوبارہ شروع ہوگئی۔ ایک طرف ہمیں مغربی ممالک کے نفرت پر مبنی پروپیگنڈے کا جواب دینا ہوگا۔ دوسری طرف اپنے مسلم نوجوان خاص طور پر عرب بادشاہتوں میں نوجوانوں میں مایوسی اور اضطراب کو بھی دور کرنا ہوگا۔
کشمیری اورفلسطینی نوجوان اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے جدو جہد کررہے ہیں۔ اسلامی ممالک ان کے لیے کوئی ٹھوس سیاسی قدم نہیں اٹھارہے ہیں۔ اس وقت اسلامو فوبیا اور مسلمانوں سے نفرت کا بد ترین مرکز بھارت ہے۔
پروپیگنڈے کا جواب پروپیگنڈے سے دینا ایک مرحلہ ہے۔ لیکن اسلامی دنیا کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے۔
اکثر اسلامی ممالک میں اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ ان کے رویّے بھی اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بنتے ہیں۔انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔
فرد کی آزادی سلب کی جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں۔ دینی مدارس۔ تخلیقی اداروں اور میڈیا کا فعال اشتراک ہی وقت کا تقاضا ہے۔(بشکریہ جنگ)