تحریر: سید بدرسعید۔۔
پاکستان میں مذہب خصوصا اسلام کے نام پر برانڈنگ ہو رہی ہے ۔ ہم جیسے کانٹنٹ کری ایٹرز کو بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے اور اس سے کہیں زیادہ کمایا جاتا ہے ۔ آج کل یہی سیزن چل رہا ہے ۔ اپنی مارکیٹنگ اور برانڈنگ کو “اسلامی ٹچ” دیا جا رہا ہے ۔ پہلے ایک ایسی لسٹ تیار کر کے وائرل کی گئی جس میں بتایا گیا کہ فلاں فلاں کمپنی اسرائیل کی ہے اس لیے اس کا بائیکاٹ کریں اور اس کے متبادل فلاں فلاں کمپنی کی مصنوعات خریدیں ۔ کیا آپ نے سوچا کہ یہ لسٹ کس نے تیار کی تھی ؟ جس ملک کے ساتھ آپ کا براہ راست کاروباری رابطہ نہیں ہے ۔ آپ کے پاسپورٹ پر اس ملک جانا ممکن نہیں ہے ۔ آپ کی بزنس ڈیل براہ راست اس ملک کے ساتھ نہیں ہیں اس ملک کی اتنی زیادہ مصنوعات کیسے آپ کے ملک آ سکتی ہیں ۔ کیا آپ نے تصدیق کی کہ جن کمپنیز کے نام لکھے ہیں وہ واقعی اسرائیل کی ہیں ؟ یقینا نہیں ، آپ بھی کاپی پیسٹ اور شیئرنگ ٹرینڈ کا حصہ بن گئے ۔ کیا بطور مسلمان آپ نہیں جانتے تھے کہ حکم ہے کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بنا تصدیق آگے کر دے ۔۔۔ اب دل پر ہاتھ رکھ لیں ۔ اسرائیلی مصنوعات اور ان کے متبادل پاکستانی کمپنیز کی جو فہرست سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی اس میں اسرائیلی مصنوعات میں خالصتا پاکستانی کمپنی کے نام شامل ہیں ۔ اب اس کا اگلا مرحلہ شروع ہوا برانڈنگ کی گئی ۔ برانڈنگ اور ایڈٓورٹائزنگ کے لیے لکھنے والے الگ ہوتے ہیں ۔ یہی اسی کام کے ماہر ہوتے ہیں ۔ مجھ ایسے جو لوگ چند لائنیں لکھنے کے ہزاروں یا لاکھوں روپے لے لیتے ہیں وہ لائنیں کسی کالم کی نہیں بلکہ برانڈنگ اور مارکیٹنگ کانٹنٹ کی ہوتی ہیں جس میں چند جملوں کی مدد سے کسٹمر کا ہن کنٹرول کرنا ہوتا ہے ۔۔ اب اسی برانڈنگ میں ” تھوڑا سا اسلامی ٹچ” لگایا گیا ہے ۔ آپ کو ایک مخصوص انداز کا کانٹنٹ دیکھنے پڑھنے اور سننے کو مل رہا ہو گا کہ ہم فلس طین کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اسرا ئی ل کی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں اس لیے پیپسی یا کوک کی بجائے گورمے کی بوتل استعمال کریں لیز کی جگہ فلاں چیز لیں اور فلاں کے بدلے پاکستانی فلاں گھی استعمال کریں ۔ درست ہے لیکن کیا آپ کو حیرت نہیں ہوئی کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ پاکستانی کمپنیاں اپنا معیار بھی بہتر کر لیں ؟ ہماری لوکل مارکیٹ برانڈنگ پر پیسے خرچ کر لیتی ہے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے لگا دیتی ہے لیکن معیار بہتر نہیں کرتی کیوں کہ انہیں پتا ہے معیار بہتر کرنے میں محنت ایمانداری اور پیسے لگیں گے جبکہ اس سے کہیں زیادہ منافع برانڈنگ کی مدد سے کمایا جا سکتا ہے ۔ ایک ارب 70 لاکھ روپے مارکیٹنگ پر لگا دینے ہیں لیکن کسٹمر کو بہتر رزلٹ نہیں دینا ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ لیز کے مقابلے میں ملنے والے ملتے جلتے ناموں میں ویسا ذائقہ اور میار ہے ؟ پیکنگ میں سے ایک ایک کوکومو کم کر کے قیمت بڑھانے کو کاروباری سٹریٹیجی کہہ سکتے ہیں ۔ پاکستانی حاجی صاحب اگر اتنا اسلامی ٹچ لگانے کی بجائے معیار بہتر کر لیں تو یقینا انہیں اسرائیلی کمپنیز کی فیک لسٹیں بنانے کی ضرورت نہ پڑے (سید بدر سعید)